خبریں ، تبصرے ، آرٹیکلز، ٹیٹوریلز، کتابیں، سافٹ ویئر اور بہت کچھ
Friday, 16 March 2012
Saturday, 10 March 2012
Friday, 9 March 2012
Thursday, 8 March 2012
Wednesday, 7 March 2012
Tuesday, 6 March 2012
Monday, 5 March 2012
Saturday, 3 March 2012
Friday, 2 March 2012
Thursday, 1 March 2012
Wednesday, 29 February 2012
Tuesday, 28 February 2012
Monday, 27 February 2012
Sunday, 26 February 2012
Friday, 24 February 2012
Thursday, 23 February 2012
سائنسی سچائیاں جو سچ نہیں
دنیا بھر میں ایسے بہت سے نظریات ہیں، جنہیں ایک سائنسی حقیقت سمجھتے ہوئے
ان پر یقین اور عمل کیا جاتا ہے۔ جب کہ ان کا عموماً سائنس سے کوئی تعلق
نہیں ہوتا، اور اگر کچھ ہوتا بھی ہے تو اسے غلط سیاق و سباق میں پیش کیا
گیا ہوتا ہے۔
Wednesday, 22 February 2012
Sunday, 19 February 2012
Saturday, 18 February 2012
Friday, 17 February 2012
Thursday, 16 February 2012
Wednesday, 15 February 2012
Tuesday, 14 February 2012
Monday, 13 February 2012
Sunday, 12 February 2012
Saturday, 11 February 2012
حکومت پاکستان نے 13000 فحش ویب سائٹس بلاک کر دیں
ایکسپریس ٹرایبیون پر شائع ہونے والی خبر کے مطابق پارلیمانی سیکریٹری
برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی نواب لیاقت علی خان نےاعلان کیا ہے کہ حکومت
پاکستان کی جانب سے 13000 ویب سائیٹس جن پر فحش اور قابل اعتراض مواد تھا
بلاک کر دی گئی ہیں۔
اس حوالے سے اسمبلی میں ایک توجہ طلب نوٹس پیش کیا گیا۔ جس میں حکومت سے
پوچھا گیا کہ وہ ان فحش ویب سائیٹس کے بارے میں کیا کر رہی ہے۔ پارلیمانی
سیکریٹری کے مطابق حکومت اس تمام صورتحال سے بخوبی واقف ہے اور ایسی ویب
سائیٹس کو بلاک کرنے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔
پارلیمانی سیکریٹری نے اس روز بروز فحش ویب سائیٹس کی تعداد میں اضافے
کا نوٹس لیتے ہوئے اس کے تدارک کے لیے ایک کمیٹی بنانے کی تجویز پیش کی۔
انکے مطابق حکومت کے پاس ان تمام ویب سائیٹس کو بلاک کرنے کے لیے کوئی واضح
نظام موجود نہیں لیکن پھر بھی جیسے ہی انہیں کوئی شکایت ملتی ہے اس پر
فوری عمل کیا جاتا ہے۔
انہوں نے انڈیا اور چین کی مثال دی جہاں کثیررقوم خرچ کرکے ویب سائیٹس
بلاک کرنے کا سسٹم بنایا گیا ہے جو حکومت مخالف ویب سائیٹس بلاک کرنے کی
اہلیت بھی رکھتا ہے۔ مگر پارلیمانی سیکریٹری نے اس بات کی وضاحت کی کہ ایسے
نظام کے باوجود تمام فحش ویب سائیٹس کو بلاک کرنا محال ہے۔
ایکسپریس ٹرائیبیون
یوفون نےیو مانیٹر متعارف کرادیا
یوفون نے ان کمنگ اور آوٹ گواننگ کالز کوکنٹرول کرنے کے لیے یو مانیٹر متعارف کرادیا
اس نظام سے صارف 3 یوفون نمبرزکی کالز کو مانیٹر کر سکے گا
اس نظام سے صارف 3 یوفون نمبرزکی کالز کو مانیٹر کر سکے گا
ٹیلی نار نے تمام لوڈزپر سروس چارجز %7 بڑھا دیے
تفصیلات کے مطابق ٹیلی نار نے تمام لوڈزپر سروس چارجز %7 بڑھا دیے جو کہ 15 فروری سے لاگو ہوں گے اس طرح صارف سےہر 100 کے ری چارج یا لوڈ پر ٹیکس اور سروس چارجز کی مد میں 33.19 روپے کاٹے جائیں گے
ری چارج پر ٹیکس اور اضافی چارجز کی تفصیل کچھ یوں ہے
ودہولڈنگ ٹیکس : 10فیصد = 10 روپے
سروس چارجز : 7فیصد = 7 روپے
بقایا رقم پر جنرل سیلز ٹیکس:19.5 فیصد = 16.19 روپے
کل ٹیکس اور سروس چارجز :33.19 روپے
یعنی 15 فروری 2012 سے اب ٹیلی نار صارفین کو 100 روپے کا ری چارج کرنے پر 66.81 روپے کا بیلنس فراہم کیا جائے گا اور بقایا رقم ٹیکسوں اور اضافی چارجز کی نظر ہوجائے گی۔
ری چارج پر ٹیکس اور اضافی چارجز کی تفصیل کچھ یوں ہے
ودہولڈنگ ٹیکس : 10فیصد = 10 روپے
سروس چارجز : 7فیصد = 7 روپے
بقایا رقم پر جنرل سیلز ٹیکس:19.5 فیصد = 16.19 روپے
کل ٹیکس اور سروس چارجز :33.19 روپے
یعنی 15 فروری 2012 سے اب ٹیلی نار صارفین کو 100 روپے کا ری چارج کرنے پر 66.81 روپے کا بیلنس فراہم کیا جائے گا اور بقایا رقم ٹیکسوں اور اضافی چارجز کی نظر ہوجائے گی۔
سی آئی اے کی ویب سائٹ پر سائبر حملہ
کمپیوٹر ہیکرز نے امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی ویب سائٹ کو غیر فعال کرنے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
ہیکرز کے گروہ ’اینونِیمس‘ کی جانب سے جمعہ کو ٹوئٹر پر ’سی آئی اے
ٹینگو ڈاؤن‘ کا پیغام بھیجا گیا۔ امریکی فوج کے خصوصی دستے یہ اصطلاح دشمن
کی ہلاکت کی اطلاع دینے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
تاہم ایک اور ٹویٹ میں اینونیمس نے کہا کہ اگرچہ انہوں نے اس ہیکنگ کی اطلاع فراہم کی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ کام بھی ان کا ہے۔
یہ سی آئی اے کی ویب سائٹ کو غیر فعال کیے جانے کا پہلا موقع نہیں۔
جون دو ہزار گیارہ میں اینونیمس سے جڑے ایک گروپ للز سکیورٹی نے ادارے کی ویب سائٹ کو عارضی طور پر بند کر دیا تھا۔
سی آئی اے کی ویب سائٹ جمعہ کی شام کو کئی گھنٹے کے لیے غیر فعال رہی اور ادارے کی ترجمان کا کہنا ہے کہ وہ حالات کا جائزہ لے رہے ہیں۔
ہیکرز عموماً اس قسم کی ویب سائٹس کو ’خدمات کی عدم فراہمی‘ جیسے حملوں کا نشانہ بناتے ہیں جس میں ویب سائٹ پر اتنی ٹریفک بھیجی جاتی ہے کہ اس کے سرور اسے سنبھالنے کے قابل نہیں رہتے۔
سی آئی اے کی ویب سائٹ پر حملے میں ایسی اطلاعات نہیں ملیں کہ اس سے ادارے کے کمپیوٹر نظام میں بھی خلل پڑا ہو۔
رواں ماہ اینونیمس گروپ نے امریکی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی اور برطانوی پولیس کی ایک ایسی کال ہیک کی تھی جس میں ہیکرز کے خلاف قانونی کارروائی زیرِ بحث تھی۔
اس کے علاوہ گزشتہ ماہ فائلوں کے تبادلے کی ویب سائٹ میگا اپ لوڈ کی بندش کے بعد اینونیمس نے ہی ایک بیان میں ایف بی آئی اور امریکی محکمۂ انصاف سمیت دیگر ویب سائٹس کی بندش کا دعویٰ کیا تھا۔
تاہم ایک اور ٹویٹ میں اینونیمس نے کہا کہ اگرچہ انہوں نے اس ہیکنگ کی اطلاع فراہم کی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ یہ کام بھی ان کا ہے۔
یہ سی آئی اے کی ویب سائٹ کو غیر فعال کیے جانے کا پہلا موقع نہیں۔
جون دو ہزار گیارہ میں اینونیمس سے جڑے ایک گروپ للز سکیورٹی نے ادارے کی ویب سائٹ کو عارضی طور پر بند کر دیا تھا۔
سی آئی اے کی ویب سائٹ جمعہ کی شام کو کئی گھنٹے کے لیے غیر فعال رہی اور ادارے کی ترجمان کا کہنا ہے کہ وہ حالات کا جائزہ لے رہے ہیں۔
ہیکرز عموماً اس قسم کی ویب سائٹس کو ’خدمات کی عدم فراہمی‘ جیسے حملوں کا نشانہ بناتے ہیں جس میں ویب سائٹ پر اتنی ٹریفک بھیجی جاتی ہے کہ اس کے سرور اسے سنبھالنے کے قابل نہیں رہتے۔
سی آئی اے کی ویب سائٹ پر حملے میں ایسی اطلاعات نہیں ملیں کہ اس سے ادارے کے کمپیوٹر نظام میں بھی خلل پڑا ہو۔
رواں ماہ اینونیمس گروپ نے امریکی تحقیقاتی ادارے ایف بی آئی اور برطانوی پولیس کی ایک ایسی کال ہیک کی تھی جس میں ہیکرز کے خلاف قانونی کارروائی زیرِ بحث تھی۔
اس کے علاوہ گزشتہ ماہ فائلوں کے تبادلے کی ویب سائٹ میگا اپ لوڈ کی بندش کے بعد اینونیمس نے ہی ایک بیان میں ایف بی آئی اور امریکی محکمۂ انصاف سمیت دیگر ویب سائٹس کی بندش کا دعویٰ کیا تھا۔
بی بی سی اردو
Friday, 10 February 2012
Thursday, 9 February 2012
حکومت پنجاب کے کمپیوٹرائزیشن کو فروغ دینے کے اقدامات
اے پی پی-گورنر پنجاب لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد مقبول نے کہا ہے کہ پاکستان
جیسے ترقی پذیر ملک صرف ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کے ذریعے علم کے میدان میں ترقی
یافتہ ممالک کے ہم پایہ بن سکتے ہیں۔ کمپیوٹر ٹیکنالوجی کی اسی اہمیت کو
دیکھتے ہوئے صدر پرویز مشرف کے دور میں پاکستان میں کمپیوٹرائزیشن کے عمل
کو نمایاں طور پر آگے بڑھایا گیا ہے۔ وہ بدھ کے روز پنجاب یونیورسٹی کالج
آف انفارمیشن ٹیکنالوجی میں کمپیوٹر سائنس کے گریجوایٹس کو ڈگریاں دینے کی
تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ گورنر پنجاب نے کہا کہ حکومت اس حکمت عملی کی
بدولت پاکستان میں 18 سال سے زیادہ عمر کے تمام شہریوں کیلئے کمپیوٹرائزڈ
شناختی کارڈ دستیاب ہیں اور ہمارا ملک دنیا کے ان چند ممالک کی صف میں شامل
ہو گیا ہے جہاں مشین ریڈ ایبل پاسپورٹ اور آٹو میٹک فنگر پرنٹنگ کی سہولت
بھی موجود ہے۔ گورنر نے کہا کہ ٹیلی کمیونیکیشن کے مختلف شعبوں میں پاکستان
کی مصنوعات کا مقابلہ معیار کے حوالے سے دنیا کے جدید ترین ممالک سے کیا
جاسکتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ حکومت پنجاب کمپیوٹرائزیشن کو فروغ دینے
کیلئے لاہور میں تین ارب روپے کی لاگت سے ٹیکنالوجی پارک تعمیر کر رہی ہے
جس میں کمپیوٹر سافٹ ویئر اور اس سے منسلک دیگر مصنوعات تیار کرنیوالے
ماہرین ایک جگہ پر بیٹھ کر کام کرسکیں گے۔ انٹرنیشنل مارکٹ میں ڈیجیٹل
مصنوعات کی زبردست مانگ موجود ہے اور ہم پاکستان میں بیٹھ کر دنیا بھر سے
بزنس حاصل کرسکتے ہیں۔ ہمیں چاہئے کہ اس پوٹینشل سے فائدہ اٹھائیںجس کیلئے
ضروری ہے کہ ہماری یونیورسٹیوں میں انفارمیشن ٹیکنالوجی کے نصاب کا تعین
مارکیٹ کے تقاضوں کو سامنے رکھ کر کیا جائے اور ہمارے سٹوڈنٹس انٹرنیشنل
ماحول کا حصہ بنیں۔ گورنر خالد مقبول نے اس موقع پر بتایا کہ پنجاب
یونیورسٹی میں چار ارب روپے مالیت کے میگا پراجیکٹس شروع کئے گئے ہیں۔ ان
میگا پراجیکٹس میں ساٹھ کروڑ روپے کی لاگت سے پنجاب یونیورسٹی نیو کیمپس
میں کالج آف انفارمیشن ٹیکنالوجی کیلئے ایک مکمل شعبے کا قیام بھی شامل ہے
جس کیلئے اراضی کی نشاندہی کی جاچکی ہے۔ گورنر نے کہاکہ پنجاب یونیورسٹی
کالج آف انفارمیشن کے موجودہ کیمپس میں نئے اکیڈمک بلاک کی تعمیر کیلئے بھی
حکومت ساڑھے سات کروڑ روپے کے فنڈز جاری کریگی۔ پنجاب یونیورسٹی کے وائس
چانسلر ڈاکٹر مجاہد کامران‘ ڈین فیکلٹی آف سائنسز ڈاکٹر چوہدری فیصل انور
اور پنجاب یونیورسٹی کالج آف انفارمیشن ٹیکنالوجی کے پرنسپل ڈاکٹر سید
منصور سرور کے علاوہ لاہور میں مصروف عمل مختلف ٹیکنالوجی کمپنیوں کے چیف
ایگزیکٹو آفیسرز ڈاکٹر زرتاش عظمیٰ بختیاور وائیں اور حمیر جنید نے بھی
تقریب سے خطاب کیا۔
فیس بک کا زیادہ استعمال اداسی کا موجب
امریکی ریاست یوٹاہ کے شہر اورم میں واقع 'یوٹاہ ویلی یونی ورسٹی' سے منسلک
محققین کی جانب سے کی گئی ایک نئی تحقیق کے مطابق فیس بک کا زیادہ
استعمال کرنے والے افراد میں ویب سائٹ پر موجود اپنے حلقہ احباب کے لوگوں
کو اپنے سے زیادہ خوش اور بہتر تصور کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔
گزشتہ کئی برسوں کے دوران میں سامنے آنے والی تحقیقات سے ظاہر ہوتا ہے
کہ سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال کرنے والے افراد ان ذرائع سے اجتناب برتنے
والوں کے مقابلے میں زیادہ افسردہ زندگی گزارتے ہیں۔
لیکن اب ایک نئی تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ سماجی رابطوں کے ذرائع اور
ویب سائٹس، مثلاً فیس بک، بھی خوشی کے جذبات پر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔
امریکی ریاست یوٹاہ کے شہر اورم میں واقع 'یوٹاہ ویلی یونی ورسٹی' سے
منسلک محققین کی جانب سے کی گئی ایک نئی تحقیق کے مطابق فیس بک کا زیادہ
استعمال کرنے والے افراد میں ویب سائٹ پر موجود اپنے حلقہ احباب کے لوگوں
کو اپنے سے زیادہ خوش اور بہتر تصور کرنے کا رجحان پایا جاتا ہے۔
یونی ورسٹی کے محققین یہ جاننا چاہتے تھے کہ فیس بک کا استعمال کرنے
والے افراد میں اپنے دوستوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنے کے نتیجے میں کس قسم
کے جذبات پروان چڑھتے ہیں۔
اس مقصد کے لیے محققین نے 425 نوجوان طالبِ علموں کے سامنے یہ سوال رکھا
کہ کیا دوسرے لوگ ان سے بہتر اور زیادہ پرمسرت زندگی گزار رہے ہیں۔ بعد
ازاں محققین نے طالبِ علموں کا ان بنیادوں پر جائزہ لیا کہ وہ کب سے فیس بک
کا استعمال کر رہے ہیں اور ہر ہفتے کتنے گھنٹے سماجی رابطے کی اس ویب
سائٹ کے ذریعے دوسروں کی زندگیوں میں تاک جھانک کرتے گزارتےہیں۔
تحقیقی مطالعے میں یہ بات سامنے آئی کہ فیس بک کا زیادہ استعمال کرنے
والے طلبہ کی اکثریت دوسروں کو اپنے سے زیادہ خوش اور آسودہ خیال کرتی ہے۔
ماہرِ نفسیات ٹاڈ کیشڈان 'جارج میسن یونی ورسٹی' میں خوشی اور آسودگی
جیسے مضامین کے طالبِ علم رہے ہیں اور انہوں نے یوٹاہ یونی ورسٹی کی اس
تحقیق کے نتائج کا مطالعہ کیا ہے۔
کیشڈان کہتے ہیں کہ ایسے طلبہ کے علم میں فیس بک کے ذریعے اپنے دوستوں
کے خوش گوار حالات آتے ہیں اور وہ ان کا خود سے موازنہ کرکے اپنے آپ کو کم
خوش نصیب خیال کرنے لگتے ہیں۔
کیشڈان کے بقول یہ طلبہ سمجھتے ہیں کہ "مری زندگی تو اتنی دلچسپ اور
اطمینان بخش نہیں ہے جتنی اوروں کی ہے" اور یہ سوچ ان میں اداسی کو جنم
دیتی ہے۔
تحقیق کے مصنفین کا کہنا ہے کہ اس نتیجے کی ایک وجہ ان طلبہ کا
'کرسپانڈنس بائی یس' نامی نفسیاتی اثر کا شکار ہونا ہوسکتا ہے جس میں انسان
دوسروں کے اصل حالات سے واقف ہوئے بغیر اس کےظاہری مزاج اور شخصیت کی
بنیاد پر اس کے بارے میں رائے قائم کرلیتا ہے۔
مصنفین کے مطابق فیس بک پہ موجود اپنے دوستوں کے بارے میں یہ تصور کرنا
بہت آسان ہے کہ وہ اتنے ہی خوش ہیں جتنا ان کی پروفائل سے ظاہر ہوتا ہے
کیوں کہ لوگ عموماً سماجی رابطوں کی اس ویب سائٹ پر مثبت چیزوں کا اظہار
کرتے ہیں اور منفی اور حوصلہ شکن رویوں اور واقعات کا ذکر نہیں کرتے۔
ماہرینِ نفسیات کا کہنا ہے کہ فیس بک اور سماجی رابطوں کے دیگر وسائل
دنیا اور لوگوں سے رابطے کا ایک قابلِ قدر ذریعہ ہیں۔ لیکن اگر ان کا
استعمال چند "پرہیزی ہدایات" پر عمل کرتے ہوئے کیا جائے تو مناسب ہوگا۔
ماہرین کا مشورہ ہے کہ فیس بک پر دوسرے لوگوں کے اچھے واقعات کو جاننے
میں زیادہ وقت صرف کرنے کے بجائے اپنے خوش گوار واقعات دوسروں کے علم میں
لانا چاہئیں اور ان افراد پر توجہ دینی چاہیے جو آپ کے حقیقی دوست ہیں اور
آپ کے معاملات اور حالات کے بارے میں فکر مند رہتے ہیں۔
ماہرین نفسیات یہ مشورہ بھی دیتے ہیں کہ اگر فیس بک صارفین ویب سائٹ پر
ایسے 'فیس بک فرینڈز'کے بجائے جنہیں وہ زیادہ نہیں جانتے ہیں، ان افراد
سے زیادہ رابطے میں رہیں جو حقیقی زندگی میں بھی ان کے دوست ہوں تو وہ
'یوٹاہ یونی ورسٹی' کی اس تحقیق میں بیان کیے گئے اثرات سے محفوظ رہ سکتے
ہیں۔
وائس آف امریکہ
قبلہ اشارہ
یہ ایک ویب سروس ہے جوگوگل کا نقشہ کا استعمال کرتے ہوئےقبلہ لوکیٹ کرنے کے لئے راہنمائ فراہم کرتی ہے-
- کم سے کم فاصلے یا عظیم دائرے گوگل میپ استعمال حساب کتاب کی بنیاد پر زمین پر کسی بھی جگہ سے مکہ یا قبلہ کی سمت (ان کی روزانہ کی نماز کے دوران مسلمانوں کے لئے کا سامنا سمت) کو تلاش کرنے میں مدد کرنے کے لئے مدد مہیا کرتی ہے۔
- کم سے کم فاصلے یا عظیم دائرے گوگل میپ استعمال حساب کتاب کی بنیاد پر زمین پر کسی بھی جگہ سے مکہ یا قبلہ کی سمت (ان کی روزانہ کی نماز کے دوران مسلمانوں کے لئے کا سامنا سمت) کو تلاش کرنے میں مدد کرنے کے لئے مدد مہیا کرتی ہے۔
قبلہ سمت کا تعین خود کرنے
اپنے شہر اور ملک میں (مثال کے طور پر لاہور) کا نام درج کرتے ہوئے شروع کریں. بہت سے ممالک اور شہروں کے لئے، آپ کو آپ کی گلی کا پتہ بھی درج کر سکتے ہیں. قبلہ کی سمت کا خود بخود حساب کیا جائے گا اور نقشے پر ظاہر ہو جائے گا
اپنے شہر اور ملک میں (مثال کے طور پر لاہور) کا نام درج کرتے ہوئے شروع کریں. بہت سے ممالک اور شہروں کے لئے، آپ کو آپ کی گلی کا پتہ بھی درج کر سکتے ہیں. قبلہ کی سمت کا خود بخود حساب کیا جائے گا اور نقشے پر ظاہر ہو جائے گا
Wednesday, 8 February 2012
پاک فوج اب ٹیبلیٹ کمپیوٹرز بھی بنائے گی
خبر کے مطابق پاک فوج اب ٹیبلیٹ کمپیوٹرز بھی تیار کیا کرے گی۔ بات تو
کافی حیران کن ہے، رپورٹ کے مطابق پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس کامرہ کے زیر
اہتمام چین کی ایک کمپنی کے اشتراک سے یہ منصوبہ شروع کیا گیا ہے۔
اطلاعات
کے مطابق اس منصوبے میں بہت سے مصنوعات بنائی جائیں گی لیکن ابتدائی پر
ٹیبلیٹ کمپیوٹر ، نوٹ بک اور ای بک ریڈر کی تیاری شروع کی گئی ہے۔ابتدائی طور پر یہ مصنوعات صرف راولپنڈی میں فروخت کی جائیں گی لیکن کوئی موثر طریقہ کار وضح ہوتے ہی انہیں ملک کے دوسرے شہروں جیسے لاہور اور کراچی میں بھی متعارف کروایا جائے گا۔
پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس کامرہ کے نمائیندے کے مطابق ان مصنوعات کی کوالٹی پر خصوصی دھیان دیا گیا ہے اور ایروناٹیکل کمپلیکس صارفین کے لیے ہر قسم کی مدد بھی فراہم کرے گا۔
اس حوالے سے مصنوعات کی معلومات اور فروخت کے لیے بنائی گئی ویب سائیٹ cmpc.pk فی الحال بہت زیادہ انٹرنیٹ ٹریفک کے باعث بند ہوگئی ہے۔
اپ ڈیٹ:
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ٹیبلیٹ کمپیوٹر اور ای بک ریڈر فروخت کے لیے دستیاب ہیں ، جبکہ نوٹ بکس مارچ 2012 تک دستیاب ہونگی۔ فی الوقت یہ مصنوعات صرف پاکستان ایروناٹیکل کمپلیکس کامرہ سے دستیاب ہیں لیکن جلد ہی انہیں پورے ملک میں متعارف کروا دیا جائے گا۔
محمد زہیر چوہان
بابر اقبال نے ایک اور عالمی ریکارڈ قائم کر دیا
ڈیرہ اسماعیل خان کے 14 سالہ ذہین بچے بابر اقبال
نے ڈیجیٹل فرانزک سائنس پر ریسرچ پیپر شائع کر کے ایک بار پھر ایک عالمی
ریکارڈ قائم کر دیا ہے۔ ڈیجیٹل فرانزک سائنس جدید سائنسی آلات سے ڈیٹا کی
واپسی اور جرائم کی تحقیقات کے لیے خاص معلومات فراہم کرتی ہے۔
مشہور کمپنی ایپل کے آئی پیڈ ، آئی فون اور آئی پوڈ سے متعلق بابر کی ریسرچ کو آٹھویں IEEE انٹرنیشنل کانفرنس کے موقع پر خوب سراہا گیا ہے۔ اسے اس کانفرنس کے لیے خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا۔
بابر اقبال نے جو تکنیک اختیار کی ہے اس میں ڈیوائس کو JailBreak کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی اور 30 منٹ سے کم وقت میں تمام معلومات کاپی کی جاسکتی ہیں۔ JailBreaking سے مراد ایپل کے آپریٹنگ سسٹم iOS کی Root تک رسائی حاصل کرنا ہے۔ اس کی مدد سے موبائل ایپلی کیشنز ، تھیمز اور دیگر چیزیں موبائل پر ڈاؤنلوڈ کی جا سکتی ہیں جنہیں عام طور پر ایپل کی طرف سے ڈانلوڈ نہیں کیا جا سکتا۔
بابر اقبال کی تحقیق کی روشنی میں جرائم کی تحقیقات کے لیے ایک نیا نظام تشکیل دیا جاسکتا ہے جسکی مدد سے قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی بھی موبائل فون پر موجود معلومات جیسے کال ریکارڈ ، ایس ایم ایس، جی پی ایس معلومات وغیرہ بآسانی حاصل کرسکیں گے۔
بابر جو 5 سال کی عمر سے کمپیوٹر پروگرامنگ کر رہے ہیں وہ اس سے قبل کم عمر ترین مائیکروسافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل اور کم عمر ترین سرٹیفائیڈ انٹرنیٹ ویب پروفیشنل کا اعزاز 9 سال کی عمر میں ہی حاصل کرچکے ہیں۔
اسکے بعد انہوں نے 10 سال کی عمر میں کم عمر ترین سرٹیفائیڈ وائرلیس نیٹورک ایڈمنسٹریٹر ، 11 سال کی عمر میں کم عمر ترین مائیکروسافٹ سٹوڈنٹ پارٹنر اور 12 سال کی عمر میں کم عمر ترین مائیکروسافٹ ٹیکنالوجی سپیشلسٹ کا اعزاز بھی حاصل کیا۔
بابر آج کل دبئی میں مقیم ہیں جہاں وہ مائیکروسافٹ کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ بابر کی ویب سائیٹ اور سٹوڈنٹ کیفے ویب سائیٹ جس کے ذریعے وہ ٹیکنالوجی کی معلومات پاکستانیوں اور پوری دنیا کے لوگوں کے ساتھ شئیر کرتے ہیں انکے ربط یہ ہیں
محمد زہیر چوہان
مشہور کمپنی ایپل کے آئی پیڈ ، آئی فون اور آئی پوڈ سے متعلق بابر کی ریسرچ کو آٹھویں IEEE انٹرنیشنل کانفرنس کے موقع پر خوب سراہا گیا ہے۔ اسے اس کانفرنس کے لیے خصوصی طور پر مدعو کیا گیا تھا۔
بابر اقبال نے جو تکنیک اختیار کی ہے اس میں ڈیوائس کو JailBreak کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی اور 30 منٹ سے کم وقت میں تمام معلومات کاپی کی جاسکتی ہیں۔ JailBreaking سے مراد ایپل کے آپریٹنگ سسٹم iOS کی Root تک رسائی حاصل کرنا ہے۔ اس کی مدد سے موبائل ایپلی کیشنز ، تھیمز اور دیگر چیزیں موبائل پر ڈاؤنلوڈ کی جا سکتی ہیں جنہیں عام طور پر ایپل کی طرف سے ڈانلوڈ نہیں کیا جا سکتا۔
بابر اقبال کی تحقیق کی روشنی میں جرائم کی تحقیقات کے لیے ایک نیا نظام تشکیل دیا جاسکتا ہے جسکی مدد سے قانون نافذ کرنے والے ادارے کسی بھی موبائل فون پر موجود معلومات جیسے کال ریکارڈ ، ایس ایم ایس، جی پی ایس معلومات وغیرہ بآسانی حاصل کرسکیں گے۔
بابر جو 5 سال کی عمر سے کمپیوٹر پروگرامنگ کر رہے ہیں وہ اس سے قبل کم عمر ترین مائیکروسافٹ سرٹیفائیڈ پروفیشنل اور کم عمر ترین سرٹیفائیڈ انٹرنیٹ ویب پروفیشنل کا اعزاز 9 سال کی عمر میں ہی حاصل کرچکے ہیں۔
اسکے بعد انہوں نے 10 سال کی عمر میں کم عمر ترین سرٹیفائیڈ وائرلیس نیٹورک ایڈمنسٹریٹر ، 11 سال کی عمر میں کم عمر ترین مائیکروسافٹ سٹوڈنٹ پارٹنر اور 12 سال کی عمر میں کم عمر ترین مائیکروسافٹ ٹیکنالوجی سپیشلسٹ کا اعزاز بھی حاصل کیا۔
بابر آج کل دبئی میں مقیم ہیں جہاں وہ مائیکروسافٹ کے ساتھ کام کررہے ہیں۔ بابر کی ویب سائیٹ اور سٹوڈنٹ کیفے ویب سائیٹ جس کے ذریعے وہ ٹیکنالوجی کی معلومات پاکستانیوں اور پوری دنیا کے لوگوں کے ساتھ شئیر کرتے ہیں انکے ربط یہ ہیں
محمد زہیر چوہان
سندھ میں لینڈ ریونیو ریکارڈ کمپیوٹرائزیشن سسٹم کا افتتاح
وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ نے صوبہ سندھ کے لینڈ ریونیو ریکارڈ کو
بہتر انداز سے محفوظ رکھنے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہاکہ اس ضمن میں
بورڈ آف ریونیو پر بڑی اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جدید کمپیوٹرائز
نظام کے ذریعے اسکی مکمل حفاظت کرے تاکہ زمین کے مالکان اور کھاتیداروں کو
کوئی دشواری پیش نہ آسکے۔یہ بات انہوں نیگزشتہ روز ریونیو ہاس شیریں جناح
کالونی کراچی میں سندھ کے لینڈریونیو ریکارڈ کیلئے قائم کردہ کمپیوٹرائزڈ
پروگرام کی افتتاحی تقریب کے دوران گفتگو کرتے ہوئے کہی۔وزیراعلیٰ سندھ نے
ہدایت کی کہ لینڈ ریکارڈ کو کمپیوٹرائز سسٹم کے تحت درست طریقے سے محفوظ
بنانے کے عمل کو یقینی بنایا جائے تاکہ زمین مالکان کو انکے اصل اور صحیح
دستاویزات کے حصول میں مدد مل سکے۔ انہوں نے مزید کہاکہ ریونیوکے پرانے
دستاویزات و اندراجات اس وقت خستہ حالت میں ہیں، لہٰذامتعلقہ افسران کو
چاہیے کہ وہ ان دستاویزات کی نقول کے داخلے اور ترتیب کو درست رکھنے کیلئے
ترجیحی بنیادوں پر توجہ دیں۔ سید قائم علی شاہ نے کہاکہ حکومت سندھ توقع
رکھتی ہے کہ اس کمپیوٹرائز سسٹم کے فعال ہونے سے محکمہ ریونیو کی کارکردگی
میں مزید بہتری آئے گی۔افتتاحی تقریب میں دیگر کے علاوہ صوبائی وزیر خزانہ
شرجیل انعام میمن، چیف سیکرٹری سندھ ڈاکٹر عطا محمد پہنور، سیکرٹری اطلاعات
سندھ سید صفدر علی شاہ اور بورڈ آف ریونیو سندھ کے افسران نے شرکت کی۔
ڈارک ویب، جہاں گمنامی ہی اصل خوبی ہے
انٹرنیٹ کی عام دنیا سے پرے ایک ایسی آن لائن دنیا بھی موجود ہے جسے ’ڈارک ویب‘ کہا جاتا ہے۔
یہ ایک ایسا گمنام عالمی انٹرنیٹ نظام ہے جسے تلاش
کرنا تقریباً ناممکن ہے اور اس کی یہی خصوصیت اسے سیاسی کارکنوں سے لے کر
مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث افراد تک سب میں مقبول بناتی ہے۔
ڈارک ویب دراصل دنیا بھر میں موجود ایسے کمپیوٹر صارفین کا نیٹ ورک ہے
جن کا ماننا ہے کہ انٹرنیٹ کو کسی قانون کا پابند نہیں ہونا چاہیے اور نہ
ہی اس پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نظر رکھنی چاہیے۔
امریکی طالبعلم ڈیوڈ(اصل نام نہیں) بھی ایک ایسے ہی فرد ہیں جو اس ’ڈراک ویب‘ کے صارف ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ اسے غیر قانونی منشیات کی
خریداری کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب انہیں ’سڑک کنارے
موجود کسی منشیات فروش کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، جہاں تشدد کا خطرہ موجود
رہتا ہے‘۔
اور انٹرنیٹ کی اس ’بلیک مارکیٹ‘ میں صرف منشیات ہی نہیں بلکہ جعلی پاسپورٹس، ہتھیار اور فحش مواد سب کچھ میسر ہے۔
یہ نیٹ ورک ڈیوڈ اور اسے منشیات بیچنے والے افراد
دونوں کو گمنام رہنے میں مدد دیتا ہے۔ اکثر گاہگوں کو یہ نہیں پتہ ہوتا کہ
وہ جس سے لین دین کر رہے ہیں اس کی اصلیت کیا ہے اور حکام کے لیے ان کا پتہ
لگانا بھی اگر ناممکن نہیں تو بےحد مشکل ضرور ہے۔
اس نیٹ ورک کے ایک صارف کا کہنا ہے کہ ’میں عام
لین دین کے مقابلے میں آن لائن لین دین کو زیادہ محفوظ سمجھتا ہوں۔ میں
پہلے کھلے عام منشیات فروشی کرتا تھا لیکن اب کسی بھی ایسے کام کے لیے ڈراک
ویب استعمال کرتا ہوں‘۔
ایک اور صارف نے بتایا کہ ’اگر آپ نوجوان ہیں
اورگانجے سے زیادہ اثردار کسی بھی نشہ آور شے کی تلاش میں ہیں تو گرفتار
ہوئے یا حکام کی نظروں میں آئے بغیر ایسا ہونا عملاً ناممکن ہے‘۔
کسی صارف کی ڈارک ویب تک رسائی کا دارومدار اس کے
پاس موجود پیئر ٹو پیئر فائل شیئرنگ ٹیکنالوجی کے سافٹ ویئرز پر ہوتا ہے۔
یہ سافٹ ویئر صارفین اور ڈارک ویب کی ویب سائٹس کی لوکیشن کو بدلنے کے کام
آتے ہیں۔
ڈارک ویب صرف مجرمانہ سرگرمیوں کا ہی مرکز نہیں
بلکہ اسے ان ممالک کے رہائشی سیاسی کارکن بھی استعمال کرتے ہیں جہاں آزادی
رائے موجود نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ عرب ممالک میں گزشتہ برس اٹھنے والی
انقلاب کی لہر کے منتظمین نے بھی اس نیٹ ورک سے مدد لی تھی۔
اس ’ڈارک ویب‘ کو خفیہ بنانے میں ایک اہم چیز ’بٹ
کوائنز‘ کا استعمال ہے۔ یہ ایک ایسی برقی کرنسی ہے جسے آن لائن گیمز کھیلنے
والے افراد قانونی طور پر استعمال کرتے ہیں لیکن مجرمان اسے اپنے مالیاتی
لین دین کو خفیہ رکھنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ بحرِ اوقیانوس کے دونوں جانب کی پولیس ڈارک ویب کی مدد سے جاری مجرمانہ سرگرمیوں پر قابو پانے کے لیے کیا رہی ہے؟
انٹرنیٹ سکیورٹی کے لیے برطانوی اور امریکی حکومت
کے مشیر جان کار کا کہنا ہے کہ’ پولیس ایک ہی بات کہتی ہے اور وہ یہ کہ
ہمارے پاس کافی تعداد میں نہ تو عدالتیں ہیں، نہ جج اور نہ ہی اتنے پولیس
افسر کہ وہ انٹرنیٹ پر جاری غیر قانونی سرگرمیوں پر قابو پا سکیں‘۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’اس کا
مطلب یہ ہے کہ ہمیں اس کا تکنیکی حل تلاش کرنا ہوگا اور مدد کے لیے
انٹرنیٹ کی صنعت سے وابستہ افراد کی جانب ہی دیکھنا ہوگا‘۔
برطانوی پولیس کی ڈپٹی اسسٹنٹ کمشنر جینٹ ولیمز کے
مطابق ’پولیس تیزی سے پھیلتے ہوئے سائبر جرائم سے واقف ہے اور ہم قومی اور
بین الاقوامی سطح پر نجی شعبے سے مل کر ویب پر مجرمانہ سرگرمیوں سے نمٹنے
کے لیے کوشاں ہیں‘۔
لیکن ان سب کوششوں کے باوجود ڈراک ویب کی غیر
قانونی سرگرمیاں پولیس کی پہنچ سے دور ہیں اور اس نیٹ ورک کے حامیوں کا
کہنا ہے کہ اس کی گمنامی ہی اس کی اصل خوبی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اسی گمنامی نے ان حکومت مخالف
بلاگرز کو پناہ دے رکھی ہے جنہوں نے عرب ممالک میں حکومت مخالف تحاریک میں
اہم کردار ادا کیا اور یہی نیٹ ورک چین جیسے ممالک میں ان منحرفین کی آواز
دنیا تک پہنچانے کا ذریعہ ہے جو سامنے آنے کی صورت میں حکومتی عتاب کا شکار
ہو سکتے ہیں۔
ڈارک ویب کے امریکی صارف ڈیوڈ کے لیے یہ چناؤ کی
آزادی کی بات ہے، ’مجھ سمیت بہت سے لوگ یہ مانتے ہیں کہ منشیات کا استعمال
قانونی قرار دیا جانا چاہیے اور ڈارک ویب اس یقین کی عملی شکل ہے‘۔
ایڈریئن گولڈ برگ
بی بی سی فائیو لائیو
ٹوئٹر پر ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کا الزام
برازیل کی حکومت نے ٹوئٹر پر مقدمہ کرتے ہوئے اس سے
مطالبہ کیا ہے کہ وہ اپنے ایسے اکاؤنٹ ختم کرے جس میں وہاں کے شہریوں کو
روڈ بلاک اور تیز رفتارگاڑیوں کو پکڑنے کے پولیس کے طریقوں سے خبردار کیا
گیا ہے۔
حکام کا خیال ہے کہ ٹوئٹر کی یہ سروس ملک میں شراب پی کر ڈرائیونگ کی روک تھام کے لیے کی جانے والی کوششوں کو نقصان پہنچا رہی ہے۔
حکومت نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ ٹوئٹر جب تک اس پر عمل درآمد نہیں کرتا تب تک ہر روز دو لاکھ نوے ہزار ڈالریومیہ ادا کرے۔
ٹوئٹر نے ابھی تک اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔
اس سے پہلے ٹوئٹر یہ اعلان کر چکا ہے کہ اگر اس سے
درخواست کی جائے تو وہ ان پیغامات کو بلاک کر سکتا ہے جو مقامی قوانین کے
خلاف ہوں۔
یہ مقدمہ برازیل کے اٹارنی جنرل نے وفاقی عدالت
میں دائر کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ٹوئٹر پر ڈرائیوروں کے لیے جو
اطلاعات فراہم کی گئی ہیں وہ ملک کے ٹریفک قوانین کے خلاف ہیں۔
Tuesday, 7 February 2012
Subscribe to:
Posts (Atom)