Monday, 13 February 2012

موبائل صحت کا نیا دوست





موبائل صحت کا نیا دوست

سماجی ترقی
صحت کا نیا دوست
موبائل فون
دورِحاضر کی من چاہی ایجاد
خاص و عام کو بیماریوں سے محفوظ رکھنے کا ذریعہ بھی بن گئی
عاطف مرزا
 یہاں آئو، مجھے تمھاری مدد کی ضرورت ہے۔‘‘ یہ دنیا کی پہلی ٹیلی فون کال تھی جو ۱۰؍مارچ ۱۸۷۶ء میں ٹیلی فون کے موجد، الیگزینڈر گراہم بل کی طرف سے کی گئی۔ اس کال کے سبب کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ ایک رائے یہ ہے کہ سائنسدان بے احتیاطی سے اپنے اوپر تھوڑا سا تیزاب گرا بیٹھا تھا اور طبی مدد کے لیے اپنے دوست کو بلا رہا تھا۔ واقعہ چاہے کچھ بھی ہوا ہو لیکن اس میں شاید کسی کو اختلاف نہیں کہ آنے والے دنوں میں موبائل فونطب و صحت کے میدان میں انسان کے نئے معاون کے طور پر سامنے آئے گا۔
موبائل فون آج ہماری زندگی کا اہم جزو بن چکا ہے۔ بات چیت، رابطے اور معلومات کے تبادلے سے آگے نکلتے ہوئے یہ تفریح، تعلیم، بینکاری، کامرس اور کئی دوسرے میدانوں میں بھی اپنے قدم جما چکا ہے۔ اسی طرح ایک شعبہ طب و صحت کا ہے جہاں موبائل فون ٹیکنالوجی اپنے مثبت اثرات کے ساتھ داخل ہو رہی ہے۔ عوماً موبائل فون کے استعمال سے صحت پہ پڑنے والے منفی اثرات کی رپورٹیں ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں۔ ایسی ہی ایک رپورٹ جرنل آف امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں شائع ہوئی۔ اس کے مطابق موبائل فون کا زیادہ استعمال دماغ کی کارکردگی پہ منفی اثر ڈالتا ہے۔ اسی طرح برطانیہ میں ہونے والی ایک حالیہ تحقیق بتاتی ہے کہ موبائل فون صحت کے لیے ٹائم بم بھی ثابت ہو سکتا ہے۔ موبائل کا زیادہ استعمال برین ٹیومر جیسی بیماریوں کا باعث بن سکتا ہے۔ تحقیق میں شامل ایک پروفیسر نے موبائل فون کے لیے سگریٹ کے پیکٹ پہ درج انتباہ جیسی عبارت کی سفارش کی ہے۔ لیکن اس تصویر کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ موبائل فون کا استعمال محدود ہو اور سمجھ داری سے ہو تو یہ زندگی میں بے شمار آسانیاں بھی پیدا کرتا ہے۔ موبائل فون ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں طب و صحت کے شعبے میں مثبت تبدیلیاں بھی لارہا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک کے افراد موبائل فون پر موجود ایسی بے شمار ایپلی کیشنز (Applications) سے فائدہ اٹھا رہے ہیں جو صحت برقرار رکھنے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔ ان اپلی کیشنز کی تعداد ہزاروں میں ہے اور ان کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ موبائل فون بنانے والی مقبول کمپنی بلیک بیری کی صحت سے متعلقہ ایپلی کیشنز کی تعداد ۲۸۰؍ سے زائد ہے۔ اسی طرح دنیا میں سب سے زیادہ موبائل فون بنانے والی کمپنی نوکیا اور انٹرنیٹ کی بڑی کمپنی گوگل کی طرف سے بھی نت نئی ایپلی کیشنز سامنے آ تی رہتی ہیں۔
 اگر آپ کسی ترقی یافتہ ملک میں ہیں تو آپ کا موبائل صحت برقرار رکھنے کی کوشش میں آپ کے ساتھ ساتھ ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر موبائل فون آپ کے لیے چشمے (Glasses) کا صحیح نمبر تجویز کر سکتا ہے۔ جو غذا آپ کھا رہے ہوں اس کی غذائیت کے بارے میں مکمل معلومات دیتا ہے۔ اسی طرح دن بھر میں حاصل کی جانے والی کیلوریز کی تعداد کا بھی حساب رکھتا ہے۔ آپ کا موبائل فون آپ کے گلوکوز اور کولیسٹرول کی سطح پہ بھی نظر رکھے گا۔
موبائل آپ کو ادویات کے بارے میں بھی بتا سکتا ہے کہ وہ اصلی ہیں یا جعلی۔ اس کے ذریعے دمہ کے کسی حملے کی پیشگی اطلاع بھی مل سکتی ہے۔ یہ تمباکو نوشی ترک کرنے کی کوشش میں بھی آپ کا معاون بن سکتا ہے۔ دوالینے کے وقت کے بارے میں بھی یاد دھانی کروا سکتا ہے۔ کسی ایمرجنسی کی صورت میں طبی مدد کے لیے درکار ابتدائی معلومات فوراً مہیا کر سکتا ہے۔ موبائل ایسی گھڑی میں بھی تبدیل ہو سکتا ہے جو ورزش کرتے ہوئے آپ کو اس کے دورانیے اور دل کی دھڑکن کے بارے میں بتاتی رہے یا دوڑ، چہل قدمی، تیراکی اور سائیکلنگ کرتے ہوئے آپ کے طے کردہ فاصلے، وقت اور رفتار پہ نظر رکھے۔
ترقی پذیر ممالک میں موبائل فون استعمال کرنے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس رجحان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے طب و صحت کے شعبے میں بھی لوگوں کے لیے بے شمار آسانیاں پیدا کی جا سکتی ہیں۔ ترقی پذیر اور غریب ممالک میں آبادی کی کثیر تعداد ہسپتال، کلینک اور صحت کی دوسری سہولتوں سے محروم رہتی ہے۔ موبائل ٹیکنالوجی سے ایسے بے شمار منصوبے شروع کیے جا سکتے ہیں جن کے ذریعے امراض کی تشخیص اور علاج کو بہتر بنایا، بیماریوں کا پھیلائو روکا اور صحت سے متعلق معلومات کی فراہمی کو عام کیا جائے۔
ایک عالمی فلاحی ادارے نے نوکیا کمپنی کے تعاون سے بھارت میں گزشتہ سال ذیابیطس سے بچائو کے لیے ایک آگہی مہم شروع کی۔ اس میں ہدف مقرر کیا گیا کہ دو سال کے عرصے میں 12  مختلف زبانوں میں     10    لاکھ افراد کو ذیابیطس سے بچائو کے حوالے سے موبائل پیغا ما ت  بھیجے جائیں  گے۔  انھیں بتایا جائے کہ عادات میں تبدیلی کے ذریعے ذیابیطس سے کیسے بچا جائے۔موبائل استعمال کرنے و لا  6 ماہ کے لیے ہفتے میں ۲ بار یہ پیغامات حاصل کر سکتا اور معمولی قیمت میں یہ سلسلہ جاری بھی رکھ سکتا ہ ے۔
معروف آئی۔ٹی کمپنی مائیکرو سافٹ کے بانی اور فلاحی کاموں کے حوالے سے عالمی شہرت رکھنے والے بل گیٹس نے بھی سماجی ترقی کے لیے موبائل فون کی افادیت کو تسلیم کیا ہے۔ انھوں نے موبائل کی افادیت کے حوالے سے ہونے والی ایک عالمی کانفرنس میں اس سوچ کا اظہار کیا کہ غریب ممالک میں موبائل فون کے استعمال سے بچوں کو مہلک بیماریوں کے لیے دی جانے والی ویکسین کی شرح میں نمایاں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ ایسے منصوبوں میں لوگوں کے موبائل فون پہ یاد دھانی کے پیغامات بھیجے جاتے ہیں اور محدود پیمانے پہ لوگوں کو کال کرکے صحت کے عملے کی طرف سے دیئے گئے اعدادوشمار کی تصدیق بھی ممکن ہوتی ہے۔
ترقی پذیر ممالک میں طب و صحت کے حوالے سے کئی ایسے منصوبے ہیں جہاں موبائل ٹیکنالوجی اپنی افادیت ثابت کر چکی ہے۔ برازیل کے علاقے میں موبائل کمپنی نوکیا کے تعاون سے معلومات اکٹھی کرنے میں مدد دینے والی ٹیکنالوجی استعمال کی گئی۔ اس میں فیلڈ ورکرز نے موبائل کے ذریعے اعدادوشمار اکٹھے کیے اور ڈینگی بخار کا پھیلائو روکنے کے لیے مؤثر کردارادا کیا۔ بچوں کی پیدائش کی رجسٹریشن، زراعت اور پانی کے سروے کے لیے بھی اسی ٹیکنالوجی کو استعمال کیا گیا۔
بھارت میں ایسے کئی منصوبوں پہ کام کیا گیا ہے جن کے ذریعے لوگوں کو ملنے والی صحت کی سہولتوں کو بہتر بنایا گیا۔ وہاں وزارتِ صحت کے ایک ایسے ہی پروگرام میں بچوں کو ویکسین دینے کی شرح بہتر بنانے کے لیے موبائل فون کا استعمال کیاگیا۔ ا س میں ۲ ۶                    ؍ ملین حاملہ خواتین کے موبائل نمبر اکٹھے کرنے کا ہدف مقرر کیا گیا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ خواتین کی ایک محدود تعداد کو موبائل کے ذریعے بچوں کے ویکسین دیئے جانے کے بارے میں پوچھا جائے اور اس حوالے سے صحت کے عملے کی طرف سے اکٹھے کیے گئے اعدادوشمار کی تصدیق کی جائے۔
اسی ملک میں ایک دلچسپ منصوبہ ڈاکٹر ایس ایم ایس (SMS) ہے۔ اس منصوبے میں موبائل استعمال کرنے والے فرد کو ایک ایس ایم ایس بھیجنے پہ قریبی ہسپتالوں اور ڈاکٹروں کے پتے اور فون نمبر جیسی معلومات موبائل پیغام کے ذریعے پہنچائی جاتی ہے۔ اس منصوبے کو مزید وسعت دی جا رہی ہے۔ مستقبل میں ڈینگی جیسی بیماریوں کا پھیلائو روکنے کے لیے لوگوں کو پیغامات (Alerts) بھیجے جائیں گے۔ خون کے ضرورت مند فرد کی کال خون عطیہ کرنے والے افراد تک پہنچائی جائے گی۔اسی طرح کے ایک منصوبے میں بھارت کی معروف ٹیلی کام کمپنی ایئرٹیل (Airtel) حاملہ خواتین کو صحت کے حوالے سے موبائل پیغامات پہنچانے کے منصوبے پہ کام کر رہی ہے۔
ایک اور ریاست میں بیماری کے پھیلائو پہ نظر رکھنے کے لیے نوکیا کمپنی کے تعاون سے ایک منصوبہ شروع کیا گیا۔ ایک منفرد منصوبے میں موبائل کمپنی ووڈافون کے تعاون سے طبی آلات بنانے والی کمپنی نے موبائل کے ذریعے یہ ممکن بنایا کہ ڈاکٹر دور بیٹھے مریضوں کی ای۔سی۔جی (ECG) اور دل کی کارکردگی کی رپورٹیں دیکھ سکیں۔
صحت کی سہولتوں تک رسائی ممکن بنانے کے لیے ایسے ہی بے شمار منصوبے دوسرے ترقی پذیر ممالک میں شروع کیے جا سکتے ہیں۔ موبائل فون کے استعمال کرنے والوں کی تعداد کے حوالے سے پاکستان ایشیا میں پانچویں نمبر پہ ہے۔ پاکس تانمی ۱۰۰                      ؍ ملین سے زائد افراد موبائل فون استعمال کر رہے ہیں۔ اس کے فروغ کی وجہ کمپنیوں میں بڑھتا ہوا مقابلے کا رجحان اور کال کی کم قیمتیں ہیں۔ موبائل استعمال کرنے والوں میں خواتین، چھوٹے کسان، تاجر، کم آمدنی والے اور کم پڑھے لکھے افراد بھی شامل ہیں۔ یہاں کال کے علاوہ موبائل پیغامات ایس ایم ایس  بھی رابطے کا مقبول ذریعہ ہیں۔ یہ ہمارے طرزِزندگی میں نمایاں تبدیلی لے کر آئے ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستانی ہرروز ایک بلین سے زیادہ پیغامات بھیجتے ہیں ۔ ۲۰۱۰ء میں پاکستان ٹیلی کمیونی کیشن اتھارٹی کی ایک رپورٹ کے مطابق ۲۰۰۹ء میں پاکستانیوں     نے ۱۵   ۱       ؍   بلین پیغا ما ت  بھیجے۔ ایس ایم ایس کی ٹریفک کے حوالے سے پاکستان دنیا کے بڑے ممالک میں شامل ہے۔ نوکیا نے پاکستان کو ایس ایم ایس ٹریفک میں دنیا کا تیسرا بڑا ملک قرار دیا۔
پاکستان میں بھی دوسرے مماک کی طرح سماجی منصوبوں کو زیادہ مؤثر بنانے کے لیے موبائل فون ٹیکنالوجی کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ایک موبائل کمپنی نے یہاں عالمی ادارہ یونیسکو کے تعاون سے لڑکیوں کی تعلیم کے منصوبے پر کام کیا۔ اس میں بچیوں کی تعلیم کے لیے موبائل پیغامات کے ذریعے خواندگی کے تصور کو اپنایا گیا۔ اسی طرح ایک اور کمپنی نے طبی مشورے کی سروس کا آغاز کیا۔ لیکن یہاں طب و صحت کے میدان میں اس جدید اور مقبول ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھانے کے بے شمار مواقع موجود ہیں۔ یہ ٹیکنالوجی بیماریوں کی تشخیص اور علاج میں معاونت اور ڈینگی جیسی ہلاکتوں کے پھیلائو کو روکنے میں فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔ اس کے ذریعے ذیابیطس جیسی بیماریوں سے بچائو کے لیے آگہی پھیلائی جا سکتی اور بچوں کے لیے حفاظتی ٹیکوں جیسے پروگراموں کو مؤثر بنایا جا سکتا ہے۔
لیکن ہمیں ایسے رویوں اور پالیسیوں کی ضرورت ہے جو موبائل ٹیکنالوجی کو معاشی اور سماجی ترقی سے ہم آہنگ کریں تاکہ لوگوں کا معیارِ زندگی بہتر ہو۔
دنیا کے نامور ماہرِمعاشیات اور بنگلہ دیش میں گرامین بینک کے بانی، نوبل انعام یافتہ، محمد یونس کا خیال ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں لوگوں کو غربت سے نکالنے کا سب سے تیز طریقہ یہ ہے کہ انھیں موبائل فون مہیا کر دیئے جائیں۔ گرامین بینک غریبوں کو چھوٹے قرضوں کے ذریعے خوشحال کرنے کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے۔
موبائل فون کے ذریعے معاشی اور سماجی ترقی کا عمل تیز کرنے کے لیے سرکاری اور نجی شعبے میں موبائل ٹیکنالوجی اور صحت سے متعلقہ ہمارے اداروں اور کمپنیوں کو یہی سوچ سامنے رکھنی ہوگی۔’’واٹسن
 اُردوڈائجسٹ

No comments:

Post a Comment