انٹرنیٹ کی عام دنیا سے پرے ایک ایسی آن لائن دنیا بھی موجود ہے جسے ’ڈارک ویب‘ کہا جاتا ہے۔
یہ ایک ایسا گمنام عالمی انٹرنیٹ نظام ہے جسے تلاش
کرنا تقریباً ناممکن ہے اور اس کی یہی خصوصیت اسے سیاسی کارکنوں سے لے کر
مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث افراد تک سب میں مقبول بناتی ہے۔
ڈارک ویب دراصل دنیا بھر میں موجود ایسے کمپیوٹر صارفین کا نیٹ ورک ہے
جن کا ماننا ہے کہ انٹرنیٹ کو کسی قانون کا پابند نہیں ہونا چاہیے اور نہ
ہی اس پر قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نظر رکھنی چاہیے۔
امریکی طالبعلم ڈیوڈ(اصل نام نہیں) بھی ایک ایسے ہی فرد ہیں جو اس ’ڈراک ویب‘ کے صارف ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ اسے غیر قانونی منشیات کی
خریداری کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب انہیں ’سڑک کنارے
موجود کسی منشیات فروش کا سامنا نہیں کرنا پڑتا، جہاں تشدد کا خطرہ موجود
رہتا ہے‘۔
اور انٹرنیٹ کی اس ’بلیک مارکیٹ‘ میں صرف منشیات ہی نہیں بلکہ جعلی پاسپورٹس، ہتھیار اور فحش مواد سب کچھ میسر ہے۔
یہ نیٹ ورک ڈیوڈ اور اسے منشیات بیچنے والے افراد
دونوں کو گمنام رہنے میں مدد دیتا ہے۔ اکثر گاہگوں کو یہ نہیں پتہ ہوتا کہ
وہ جس سے لین دین کر رہے ہیں اس کی اصلیت کیا ہے اور حکام کے لیے ان کا پتہ
لگانا بھی اگر ناممکن نہیں تو بےحد مشکل ضرور ہے۔
اس نیٹ ورک کے ایک صارف کا کہنا ہے کہ ’میں عام
لین دین کے مقابلے میں آن لائن لین دین کو زیادہ محفوظ سمجھتا ہوں۔ میں
پہلے کھلے عام منشیات فروشی کرتا تھا لیکن اب کسی بھی ایسے کام کے لیے ڈراک
ویب استعمال کرتا ہوں‘۔
ایک اور صارف نے بتایا کہ ’اگر آپ نوجوان ہیں
اورگانجے سے زیادہ اثردار کسی بھی نشہ آور شے کی تلاش میں ہیں تو گرفتار
ہوئے یا حکام کی نظروں میں آئے بغیر ایسا ہونا عملاً ناممکن ہے‘۔
کسی صارف کی ڈارک ویب تک رسائی کا دارومدار اس کے
پاس موجود پیئر ٹو پیئر فائل شیئرنگ ٹیکنالوجی کے سافٹ ویئرز پر ہوتا ہے۔
یہ سافٹ ویئر صارفین اور ڈارک ویب کی ویب سائٹس کی لوکیشن کو بدلنے کے کام
آتے ہیں۔
ڈارک ویب صرف مجرمانہ سرگرمیوں کا ہی مرکز نہیں
بلکہ اسے ان ممالک کے رہائشی سیاسی کارکن بھی استعمال کرتے ہیں جہاں آزادی
رائے موجود نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ عرب ممالک میں گزشتہ برس اٹھنے والی
انقلاب کی لہر کے منتظمین نے بھی اس نیٹ ورک سے مدد لی تھی۔
اس ’ڈارک ویب‘ کو خفیہ بنانے میں ایک اہم چیز ’بٹ
کوائنز‘ کا استعمال ہے۔ یہ ایک ایسی برقی کرنسی ہے جسے آن لائن گیمز کھیلنے
والے افراد قانونی طور پر استعمال کرتے ہیں لیکن مجرمان اسے اپنے مالیاتی
لین دین کو خفیہ رکھنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ بحرِ اوقیانوس کے دونوں جانب کی پولیس ڈارک ویب کی مدد سے جاری مجرمانہ سرگرمیوں پر قابو پانے کے لیے کیا رہی ہے؟
انٹرنیٹ سکیورٹی کے لیے برطانوی اور امریکی حکومت
کے مشیر جان کار کا کہنا ہے کہ’ پولیس ایک ہی بات کہتی ہے اور وہ یہ کہ
ہمارے پاس کافی تعداد میں نہ تو عدالتیں ہیں، نہ جج اور نہ ہی اتنے پولیس
افسر کہ وہ انٹرنیٹ پر جاری غیر قانونی سرگرمیوں پر قابو پا سکیں‘۔
بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’اس کا
مطلب یہ ہے کہ ہمیں اس کا تکنیکی حل تلاش کرنا ہوگا اور مدد کے لیے
انٹرنیٹ کی صنعت سے وابستہ افراد کی جانب ہی دیکھنا ہوگا‘۔
انٹرنیٹ کی اس ’بلیک مارکیٹ‘ میں صرف منشیات ہی نہیں بلکہ جعلی پاسپورٹس، ہتھیار اور فحش مواد سب کچھ میسر ہے۔
برطانوی پولیس کی ڈپٹی اسسٹنٹ کمشنر جینٹ ولیمز کے
مطابق ’پولیس تیزی سے پھیلتے ہوئے سائبر جرائم سے واقف ہے اور ہم قومی اور
بین الاقوامی سطح پر نجی شعبے سے مل کر ویب پر مجرمانہ سرگرمیوں سے نمٹنے
کے لیے کوشاں ہیں‘۔
لیکن ان سب کوششوں کے باوجود ڈراک ویب کی غیر
قانونی سرگرمیاں پولیس کی پہنچ سے دور ہیں اور اس نیٹ ورک کے حامیوں کا
کہنا ہے کہ اس کی گمنامی ہی اس کی اصل خوبی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ اسی گمنامی نے ان حکومت مخالف
بلاگرز کو پناہ دے رکھی ہے جنہوں نے عرب ممالک میں حکومت مخالف تحاریک میں
اہم کردار ادا کیا اور یہی نیٹ ورک چین جیسے ممالک میں ان منحرفین کی آواز
دنیا تک پہنچانے کا ذریعہ ہے جو سامنے آنے کی صورت میں حکومتی عتاب کا شکار
ہو سکتے ہیں۔
ڈارک ویب کے امریکی صارف ڈیوڈ کے لیے یہ چناؤ کی
آزادی کی بات ہے، ’مجھ سمیت بہت سے لوگ یہ مانتے ہیں کہ منشیات کا استعمال
قانونی قرار دیا جانا چاہیے اور ڈارک ویب اس یقین کی عملی شکل ہے‘۔
ایڈریئن گولڈ برگ
بی بی سی فائیو لائیو