ہم اپنی روزمرہ زندگی میں بہت سی چیزوں پر انہیں سائنسی حقیقت یاطبی شعبے کی تحقیق سمجھ کر نہ صرف یقین کرلیتے ہیں بلکہ انہیں اپنے لیے فائدہ مند سمجھتے ہوئے عمل بھی کرتے رہتے ہیں ۔  جب کہ حقیقت اس سے بہت مختلف ہوتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ بہت سے ڈاکٹر اور اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد بھی ایسی کئی سائنسی غلط فہمیوں کو سچ مان کر ان پر عمل کرنے کی تلقین کرتے ہیں۔
اس مضمون میں ہم چند ایسی سائنسی غلط فہمیوں کا ذکرکررہے ہیں جو ہماری روزمرہ زندگی میں شامل ہوچکی ہیں جنہیں لوگوں کی اکثریت ایک سائنسی حقیقت کے طورپر قبول کرچکی ہے۔

روزانہ پانی کے آٹھ گلاس پینے چاہیں:
آپ نے اکثر یہ پڑھا اور سنا ہوگا کہ اچھی صحت کے لیے روزانہ پانی کے آٹھ گلاس پینے چاہیں۔ جب کہ اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ایک انسان کو روزانہ کتنا پانی درکار ہوتا ہے ؟ اس کا انحصار کئی عوامل پر ہے۔ مثلاً اس کی رہائش سرد یا گرم علاقے میں  ہے؟ اس کی عمر، وزن اور قدکاٹھ کتنا ہے؟ وغیرہ۔ 
آٹھ گلاس کے مفروضے کی بنیاد غالباً 1945ء میں نیوٹریشن کونسل کے تحت کی جانے والی ایک سائنسی تحقیق ہے ۔ جس میں بتایا گیا تھ  کہ ایک بالغ انسان روزانہ 64 اونس یا تقریباً آٹھ گلاس مائع استعمال کرتا ہے۔ مائع سے مراد پانی، چائے، شربت، کھانے، پھلوں، سبزیوں اورخوراک کی  دیگر اشیاء میں قدرتی طور پرموجود پانی ہے۔
خیال یہ ہے کہ وقت گذرنے کے ساتھ ’مائع‘ کا لفظ پانی میں بدل گیا اور یہ جملہ کہ ایک بالغ انسان تقریباً آٹھ گلاس مائع روزانہ استعمال کرتا ہے، غلط العام ہوکریہ بن گیا کہ ایک بالغ انسان کو روزانہ آٹھ گلاس پانی پینا چاہیے۔

کم روشنی میں پڑھنے سے نظر کمزور ہوجاتی ہے:
عموماً ہر گھر میں بچوں کو کم روشنی میں پڑھنے سے روکا جاتا ہے۔  خیال عام یہ ہے کہ کم روشنی میں پڑھنے سے نظر کمزور ہوجاتی ہے۔ یہ مفروضہ اس لیے بھی حقیقت سے قریب لگتا ہے کہ اگرآپ کچھ دیر تک کم روشنی میں مطالعہ کریں تو آپ کو اپنی آنکھوں پر بوجھ محسوس ہوگا اور ممکن ہے کہ الفاظ کچھ دھندلے سے بھی لگیں۔
طبی ماہرین اس مفروضے سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا کہناہے کہ کم روشنی میں پڑھنے سے آنکھوں کے اعصاب پر دباؤ پڑسکتا ہے جس سے عارضی طور پر لفظ دھندلے دکھائی دے سکتے ہیں۔ لیکن آنکھوں کو کچھ دیر آرام دینے سے اس کے اعصاب اپنی جگہ پر واپس چلے جاتے ہیں اور بینائی اپنی اصل حالت میں لوٹ آتی ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق کم روشنی میں پڑھنے سے نظر  پر کوئی مستقل اثر انہیں پڑتا۔ بینائی  کی کمزوری کے اسباب کچھ اور ہوتے ہیں۔

شیو کرنے سے بال گھنے اور تیزی سے نکلتے ہیں:
اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ شیو کرنے سے بال نہ صرف تیزی سے نکلتے ہیں ، بلکہ وہ گھنے بھی ہوتے ہیں اور ان کی رنگت بھی گہری ہوتی ہے۔ جب کہ اس نظریے کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ اس مفروضے کی سچائی جاننے کے لیے 1928ء میں ایک سائنسی تحقیق کی گئی تھی، جس سے پتا چلا تھا کہ شیو کا بالوں کے بڑھنے کی رفتار ، ان کی موٹائی اور رنگت کے گہرا ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ صرف نظر کا دھوکہ ہے۔
ہوتا یوں ہے کہ شیو کرنے کے بعد بال ایک صاف جلد پر نکلتے ہیں جس کی وجہ سے وہ زیادہ نمایاں نظر آتے ہیں اور دیکھنے والے کو یہ لگتا ہے کہ بال پہلے سے گھنے ہوگئے ہیں۔ دوسرا یہ  کہ شیو کے دوران بلیڈ عموماً بالوں کو ترچھا کاٹتا ہے اور اپنے نوکیلے سروں کی بنا پر بال گھنے نظر آتے ہیں۔  اسی طرح اگر جلد پر پہلے سے بال موجود ہوں تو ان کے بڑھنے کا احساس ذرا کم ہوتا ہے۔ لیکن صاف جلد پر وہ نمایاں انداز میں بڑھتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں۔ ماہرین نے جب شیو سے قبل اوراس کے بعد ایک مقررہ وقت کے دوران ان کی لمبائی میں اضافے کی پیمائش کی، تو وہ برابر نکلی۔  
بالوں کی رنگت کا بھی شیو سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کچھ عرصے تک دن کی روشنی میں رہنے سے بالوں کی رنگت قدرے کم پڑ جاتی ہے کیونکہ سورج کی روشنی میں رنگ کاٹنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ جب کہ صاف جلد پر نئے بال ہمیں اپنے اصلی رنگ میں دکھائی دیتے ہیں، اس لیے ان کا رنگ گہرا لگتا ہے۔

ہم اپنے دماغ کا صرف دس فی صد حصہ استعمال کرتے ہیں:
عام طور یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہم اپنے دماغ کا بہت ہی کم حصہ استعمال کرتے ہیں، یعنی زیادہ سے زیادہ دس فی صد اور عام حالات میں محض تین سے پانچ فی صد تک۔ ایک سائنسی تخمینے کے مطابق انسانی دماغ میں ایک کھرب سے زیادہ نیوران ہوتے ہیں۔ نیوران وہ خلیے ہیں جو یاداشت اور دوسرے افعال کی انجام دہی میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔
دماغ کے سٹی سیکن اور اس کی کارکردگی جانچنے کی جدید ٹیکنالوجی کی دستیابی سے قبل ماہرین کا خیال تھا کہ دماغ میں موجود نیوران کی تعداد ہماری ضرورت سے کئی گنا زیادہ ہے اس لیے دماغ کا ایک بڑا حصہ استعمال میں ہی نہیں آتا۔ لیکن اب جدید تحقیق سے پتا چلا ہے کہ انسانی دماغ سو فی صد فعال ہے اور اس کا ہر حصہ مکمل طورپر کام کررہا ہے۔

انسان حواس خمسہ سے کام لیتا ہے:
عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ ایک مکمل انسان کے پاس پانچ قدرتی حواس ہوتے ہیں جن کے سہارے وہ اپنی زندگی گذارتا ہے۔ یعنی، دیکھنے، سننے، چھونے، چکھنے اورسونگھنے کی حس۔ پانچ حواس کا تصور قدیم یونانی مفکر ارسطو نے پیش کیا تھا، جسے ایک سائنسی حقیقت کے طورپر قبول کرلیا گیا۔ مگر سائنس دانوں کا کہناہے کہ خدا نے انسان کو پانچ سے زیادہ حواس دیے ہیں اور مختلف جائزوں کے مطابق ان کی تعداد 9 سے 20  کے لگ بھگ ہے۔  دیگر حواس میں درد، بھوک، پیاس، دباؤ، توازن، رفتار اورحرارت وغیرہ محسوس کرنے کی صلاحیتیں شامل ہیں۔ یہ وہ حواس ہیں جن کے بغیر زندگی گذارنے میں مشکلات پیش آسکتی ہیں۔