غالب روڈ پر دفتر ہونے کا لازمی مطلب اگر غالب
ہونا ہوتا تو لاہور کے پوش علاقے گلبرگ میں ’’پیس‘‘ کے سامنے سے نکلنے والی
اس مصروف سڑک پر واقع سبھی دفاتر اور کمپنیوں کو اپنے اپنے شعبوں میں غالب
ہونا چاہیے تھا۔ مگر عملاً ایسا تھا نہیں۔ وہاں تو کتنے ہی بے نام دفاتر
اور گھرایسے بھی تھے جنھیں ایک دوسرے کے ساتھ والے بھی نہیںجانتے۔ کئی ایسے
بھی ہیںجنھیں کامیابی کی دوڑ میں شامل ہونے کے لیے ابھی بہت وقت چاہیے
تھا۔ ویسے میرا گمان ہے اگر دوسرے نقطۂ نگاہ سے دیکھا جائے کہ اسد اللہ
غالب کے نام سے موسوم اِس سڑک پر شاید کچھ لوگ غالب کو جاننے والے نکل ہی
آئیں ۔
’’کاروِٹ‘‘ کا لفظ ایک بورڈ پر لکھا دیکھا تو گاڑی موڑ کر
ایک ذیلی سڑک پر کھڑی کرتے ہوئے میں نے عاطف سے کہا ’’گرائونڈ فلور پر
جعفر برادرز کا دفتر ہے اور فرسٹ فلور پر کاروِٹ کا دفتر، بظاہر غالب ہونے
کا تو آسان نسخہ ہے۔ عاطف مسکرایا مگر وہ ابھی تک کاروِٹ کے لفظی معانی
ڈھونڈنے میں مصروف تھا۔ جوہر ٹائون سے یہاں تک آتے ہوئے ہم ’’کاروِٹ‘‘ اور
اس کے سی۔ای۔او کاشف الحق کے بارے میں اپنے نوٹس ملاتے آ رہے تھے۔ کتنے ہی
لوگوں نے اصرار کیا، مشورہ دیا تھا، ہر ماہ کسی سیاسی لیڈر کا انٹرویو
کرلیا کرو آسانی بھی ہے اور فائدہ بھی اور میرا یقین ’’اشوکا کی لاٹ‘‘ کی
طرح قائم تھا کہ اس ملک اور اس کی نئی نسل کو آگے لے کر چلنا ہے تو ان کو
نئے پُر عزم اور باصلاحیت لیڈرز سے متعارف کرایا جانا لازم ہے جو باتوں سے
پیٹ نہ بھرتے ہوں۔ انھوں نے فی الواقعی کچھ کرکے دکھایا ہو۔ ان کی آنکھیں
روشن اور ان میں اپنے ملک کے لیے خواب سانس لیتے ہوں۔
’’
خدا شکر خورے کو شکر دیتا ہے‘‘ کے مصداق طیب اعجاز صاحب نے اس معاملے پرصاد کیا اور ہم دھیرے دھیرے اپنے ویژن اور خیال سے ہم رنگ اور ہم آہنگ بزنس لیڈرز کی تلاش میں آگے بڑھنے لگے۔ پاکستان میں تیزرفتاری سے ترقی کر نے وا لی ۲۵ ؍کمپنیوں کے انتخاب نے ہمارا کام تھوڑا آسان کردیا۔ شفاف طریقے سے کام کرتے، اچھا اور بہتر سوچتے ، اپنے لوگوں کی عزت کرتے ہوئے اور ان کا مستقبل بہتر کرتے ہوئے سالوں سے مسلسل ترقی کرنے والی یہ کمپنیاں بے شک وطنِ عزیز کی نئی پہچان بن رہی ہیں۔
خدا شکر خورے کو شکر دیتا ہے‘‘ کے مصداق طیب اعجاز صاحب نے اس معاملے پرصاد کیا اور ہم دھیرے دھیرے اپنے ویژن اور خیال سے ہم رنگ اور ہم آہنگ بزنس لیڈرز کی تلاش میں آگے بڑھنے لگے۔ پاکستان میں تیزرفتاری سے ترقی کر نے وا لی ۲۵ ؍کمپنیوں کے انتخاب نے ہمارا کام تھوڑا آسان کردیا۔ شفاف طریقے سے کام کرتے، اچھا اور بہتر سوچتے ، اپنے لوگوں کی عزت کرتے ہوئے اور ان کا مستقبل بہتر کرتے ہوئے سالوں سے مسلسل ترقی کرنے والی یہ کمپنیاں بے شک وطنِ عزیز کی نئی پہچان بن رہی ہیں۔
’’
کاروِٹ‘‘ بھی اِن ہی ۵ ۲ کمپنیوں میں سے ایک ہے جس کی سیڑھیوں سے ذرا پہلے ایک نوجوان لڑکا گارڈ کی وردی پہنے ہم سے فرمایش کر رہا تھا کہ رجسٹر پر اپنا اِندراج کر دیں۔ استقبالیے سے ایک نوجوان کی راہنمائی میں ہم اُس شخصیت سے ملنے والے تھے س نے صر ف سال میں آئی ٹی کی دنیا میں مقام بنا لیا تھا، جوکسی برانڈ کی طرح اہم اور قابلِ بھروسا بن چکا ہے۔ عین اس لمحے ٹیلی فون کی گھنٹی بجی جب گارڈ دروازہ کھول چکا تھا۔ طیب صاحب پوچھ رہے تھے ’’پہنچ گئے کیا؟‘‘ اور میں ان سے پوچھ رہا تھا ’’آپ کب تک آ رہے ہیں؟‘‘ اُس لمحے وہ وصی شاہ کے بیٹے کی سالگرہ میں شریک تھے۔
کاروِٹ‘‘ بھی اِن ہی ۵ ۲ کمپنیوں میں سے ایک ہے جس کی سیڑھیوں سے ذرا پہلے ایک نوجوان لڑکا گارڈ کی وردی پہنے ہم سے فرمایش کر رہا تھا کہ رجسٹر پر اپنا اِندراج کر دیں۔ استقبالیے سے ایک نوجوان کی راہنمائی میں ہم اُس شخصیت سے ملنے والے تھے س نے صر ف سال میں آئی ٹی کی دنیا میں مقام بنا لیا تھا، جوکسی برانڈ کی طرح اہم اور قابلِ بھروسا بن چکا ہے۔ عین اس لمحے ٹیلی فون کی گھنٹی بجی جب گارڈ دروازہ کھول چکا تھا۔ طیب صاحب پوچھ رہے تھے ’’پہنچ گئے کیا؟‘‘ اور میں ان سے پوچھ رہا تھا ’’آپ کب تک آ رہے ہیں؟‘‘ اُس لمحے وہ وصی شاہ کے بیٹے کی سالگرہ میں شریک تھے۔
ایک سمارٹ سا نوجوان کھلے دروازے میں استقبال کے لیے موجود تھا۔ ’’کاشف الحق‘‘ اُس نے تعارف کے لیے ہاتھ بڑھایا، میں نے فون سننے میں لمحہ بھر کا توقف کیا۔ خوشدلی اور محبت سے بڑھا ہوا ہاتھ تھاما اور نیم گرم کمرے میں داخل ہو گیا۔ مسکراہٹوں اور بزنس کارڈز (جنھیں وزیٹنگ کارڈ کہا جاتا ہے) کا تبادلہ ہو چکا تو میں نے ٹیپ ریکارڈر آن کر دیا۔ بے شک سوالات بے شمار تھے مگر ہم نے سوچا کہ انٹرویو کا دورانیہ بھی کارپوریٹ کلچر کی طرح متعین ہونا چاہیے۔
؍ سالہ کاشف الحق آئی۔ٹی کمپنی کاروٹ
( C o rv it) کے چیف ایگزیکٹو ہیں۔ کاشف الحق نے یو۔ای۔ٹی
لاہور سے الیکٹریکل انجینئرنگ کی۔ سیمنز (Seimens)
کمپنی میں ایک سال ملازمت کے بعد ۲۰۰۱ء میں کم وسائل کے ساتھ کاروِٹ کمپنی کی بنیاد رکھی۔ کاشف الحق نے اپنی محنت، ذہانت، پیش بینی کی صلاحیت سے کاروٹ کو آئی۔ٹی میں پاکستان کا نمایاں نام بنا دیا۔ کاروٹ اپنی نیٹ ورکنگ کی خدمات اور ٹریننگ کے حوالے سے عالمی سطح پر جانا جاتاہے۔ کاشف الحق کا ادارہ ہزاروں لوگوں کو آئی ٹی کی ٹریننگ دے چکا ہے۔
کمپنی میں ایک سال ملازمت کے بعد ۲۰۰۱ء میں کم وسائل کے ساتھ کاروِٹ کمپنی کی بنیاد رکھی۔ کاشف الحق نے اپنی محنت، ذہانت، پیش بینی کی صلاحیت سے کاروٹ کو آئی۔ٹی میں پاکستان کا نمایاں نام بنا دیا۔ کاروٹ اپنی نیٹ ورکنگ کی خدمات اور ٹریننگ کے حوالے سے عالمی سطح پر جانا جاتاہے۔ کاشف الحق کا ادارہ ہزاروں لوگوں کو آئی ٹی کی ٹریننگ دے چکا ہے۔
کامیاب انٹر پرنیوئر، چیف ایگزیکٹو اور آئی۔ٹی انسٹرکٹر کاشف انگلش اور اُردو دونوں زبانوں پر عبور رکھتے اور اچھے مقرر کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں۔
’’
ابتدا میں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟‘‘ جی ہاں یہی پہلا سوال تھا۔
ابتدا میں کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟‘‘ جی ہاں یہی پہلا سوال تھا۔
کاشف کا جواب کافی دلچسپ تھا،بولے: جب میں ابتدا میں کسی کے پاس اپنے آئیڈیا کو لے کر جاتا تھا تو وہ لوگ کہتے تھے کہ ہمارے پاس آپ جیسے کئی نوجوان آتے ہیں جو بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں کہ ہم یہ کر دیں گے وہ کر دیں گے۔ مگر جب ہم ان پہ ذمے داری ڈالتے ہیں، ان کے ساتھ کام شروع کرتے ہیں تو ویزا لگوا کر باہر چلے جاتے ہیں۔ تو ہمیں نئے سرے سے پارٹنر ڈھونڈنے پڑتے ہیں۔آئی ٹی کے لوگوں پر لوگوں کے متزلزل اعتبار کے باعث ایسے رویے پر میرا جواب یہ ہوتا تھا کہ ہم اپنی مرضی سے اس ملک میں رُکے ہوئے ہیں۔ اگر ہمیں باہر جانا ہوتا تو بہت عرصہ پہلے جا چکے ہوتے۔ ہم یہاں کام اور نئے مواقع پیدا کرنا چاہتے ہیں۔
ایک مرتبہ بہت دلچسپ صورتِ حال اُس وقت پیدا ہوئی جب ایک ادارے والوں سے ابتدائی میٹنگ کے بعد میں نے ان سے کہا مجھے اپنے ڈائریکٹر سے بھی ملوا دیں تو انھوں نے جواب دیا کہ ہمارے ڈائریکٹر صاحب ۳۰؍سال سے کم عمر کے لوگوں سے نہیں ملتے۔ ان کے خیال میں یہ لوگ صرف باتیں اور وقت ضائع کرتے ہیں۔
کاشف کو پہلی ملازمت ہی بہت اچھی کمپنی میں ملی، سیمنز کا مارکیٹ میں بڑا نام تھا، اِسی لیے پوچھا کہ کامیابی کا سفر شروع ہوا اور پھر اِتنی جلدی سیمنز (Seimens) جیسی بڑی کمپنی کو کیوں چھوڑا؟
یو ای ٹی (UET) سے الیکٹریکل انجینئرنگ کرنے کے بعد میں
نے ایک مقامی کمپنی میں ملازمت کی۔ اس کے بعد سیمنز میں کام کرنے کا موقع
ملا۔ کسی انجینئر کا سب سے بڑا خواب ہوتا ہے کہ اسے سیمنز جیسی بڑی کمپنی
میں ملازمت مل جائے۔ یہاں میری ترقی بہت تیزی سے ہوئی۔ کچھ اتفاقات بھی
ایسے ہوئے کہ مجھے جلد بڑی بڑی ذمے داریاں ملتی رہیں۔ مجھے سال کے اندر
اندر مستقل کر دیا گیا حالانکہ لوگوں کو مستقل ہونے میں ۳، ۴ سال لگ جاتے
ہیں۔ ایک سال بعد میں نے کمپنی چھوڑنے کا فیصلہ کرلیا۔ میرا خیال تھا کہ
میں لمز (LUMS) یونیورسٹی میں ماسٹرز میں داخلہ لوؔں گا۔ اس وقت میرے پاس
لمز میں تعلیم کے لیے پیسے بھی نہیں تھے لیکن میں نے فیصلہ کرلیا کہ میں
پڑھا لوں گا کچھ نہ کچھ کر لوں گا لیکن مجھے یہاں سے نکلنا ہے اور اپنے لیے
نئے مواقع پیدا کرنے ہیں۔
لمز یونیورسٹی میں داخلے سے پہلے ہی میں نے کمپنی چھوڑدی۔ اسی دوران ایک صاحب جو امریکہ سے آئے اور آئی۔ٹی میں یہاں کچھ سرمایہ کاری کرنا چاہتے تھے، ان سے ملاقات ہوئی۔ ان کے ساتھ مل کر نیٹ ورکنگ کی ٹریننگ کا ادارہ شروع کیا۔ یہ ۱۹۹۸ء کی بات ہے۔ انھوں نے ہم سے کہا تھا کہ آپ کو ۵؍فیصد شیئر ملے گا جو بعد میں ۱۰؍فیصد ہو جائے گا۔ میں نے دن رات محنت کی۔ لمز کی تعلیم کو بھی اَدھورا چھوڑ دیا۔ ہمیں زبردست کامیابی ملی۔ لیکن پھر ان صاحب نے اپنے دعوے کی پاسداری نہ کی اور ہمیں کہا کہ شیئر وغیرہ بھول جائو ، تم یہاں صرف ایک ملازم ہو۔
میں نے ان سے علحٰدگی کا فیصلہ کیا اور ۲۰۰۰ء میں اپنے دوست ہارون کے ساتھ مل کر کاروِٹ (Corvit) کی بنیاد رکھی۔
کیا مطلب تھا کاروِٹ کا، آج یہ ایک برانڈ ہے۔ کیا باقاعدہ
کچھ سوچ کر نام رکھا تھا یا جیسے ہمارے ہاں رواج ہے کہ کوئی ایسا جرمن یا
سپینش لفظ رکھ لیا جائے جس کا مطلب اور تلفظ کسی کو بھی نہ آتا ہو۔
جواب بہت سیدھا تھا، کاروِٹ نام کا کوئی مطلب نہیں تھا بس
ذرا منفرد نام تھا اور اتفاق سے اس میں آئی ٹی کے الفاظ بھی آگئے تھے۔
یہاں بھی ہمیں کامیابی ملی۔ہمارے پاس تجربہ بھی تھا اور کچھ پرانے کلائنٹس
بھی۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ہم دونوں
دوستوں کا آپس میں اعتماد کا رشتہ بہت مضبوط تھا۔
دوستوں کا آپس میں اعتماد کا رشتہ بہت مضبوط تھا۔
س: ہمارے ہاں(شراکت داری) پارٹنر شپس کیوں نہیں چلتیں اور عموماً خاندانوں میں بھی اس کا انجام بُرا ہوتا ہے؟
کاشف: دراصل ہم صبر سے کام نہیں لیتے۔ وقتی فائدے پر نظر رکھتے اور چاہتے ہیں جو فائدہ ملنا ہے، ابھی فوراً مل جائے۔ اگر ہم تعلق کو ایثار اور قربانی سے مضبوط کریں تو بہت سے دیرپا فائدے ہمارے حصے میں آتے ہیں۔ میں اور میرے پارٹنر ہارون ایک دوسرے کا احترام کرتے ہیں۔ ہم نے اپنی ذمے داریاں بھی تقسیم کر رکھی ہیں۔ لیکن فیصلہ سازی میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون ضرور کرتے ہیں۔ اِتنے سالوں سے ہمارا تعلق بے حد عمدہ اور مثالی رہا ہے۔
س: دوستی کا آغاز کیسے ہوا؟
کاشف: میٹرک کے بعد ہم اکٹھے ٹیوشن پڑھتے تھے۔ پھر ہم گورنمنٹ کالج لاہور میں اکٹھے تھے۔ ایف۔ایس۔سی میں، میں ایک سال سینئر تھا اور ہارون میرے جونیئر۔ اسی طرح یو ای ٹی میں بھی ہم اکٹھے تھے۔ میں سینئر اور ہارون جونیئر۔ قدرت نے ہمیں پیشہ ورانہ زندگی میں بھی اکٹھا کر دیا۔
س: اپنی کس بات پر فخر محسوس کرتے ہیں؟
کاشف: میں اپنے ادارے کے کسی فرد کو اپنے فائدے کے لیے استعمال نہیں کرتا۔ ہر فرد کا احترام کرتا ہوں اور انھیں پیشہ ورانہ انداز میں آگے بڑھنے کے مواقع دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ادارے کے ساتھ لوگوں کی وفاداری بے مثال ہے۔ لوگوں کو ہم سے زیادہ پیسوں کے مواقع بھی ملتے لیکن وہ ہمارے ساتھ کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ جو لوگ ہمیں چھوڑ
کر چلے بھی جاتے ہیں اگر ان کا پچھلے سال کا بونس بن رہا ہو تو وہ ان کے گھروں میں چلا جاتا ہے۔
س: آپ میں یہ مثبت اور پختہ سوچ اور یہ اقدار کہاں سے آئی ہیں؟
کاشف: کچھ ان چیزوں میں خاندان کا عمل دَخل بھی ہوتا ہے۔ میرے والد صاحب وکالت سے منسلک تھے۔ جب میں ۴؍ سال کا تھا تو اُن کا انتقال ہوگیا۔ میں زیادہ اپنے ماموں کے پاس رہا۔ وہ ریٹائرڈ جج تھے۔ ان کی زندگی سے بھی سیکھا کہ چند اُصولوں کو ہمیشہ اہمیت دینی ہے۔ میرے دادا چودھری افضل حق تحریکِ آزادی کے سرگرم کارکن اور اُردو کے نامور مصنف تھے۔ اپنی کتاب ’’زندگی‘‘ کے حوالے سے جانے جاتے ہیں۔ وہ قانون ساز اسمبلی بھارت کے رُکن بھی رہے۔ ان کی دیگر کتابیں اور تقریریں بھی زبردست تھیں۔
مجھے جب بھی طالب علموں سے بات کرنے کا موقع ملتا ہے میں انھیں یہی کہتا ہوں کہ عملی زندگی میں اپنے آئیڈیلز کو اِتنی جلدی ختم نہ کرو۔ یہ مت سمجھو کہ عملی زندگی میں صرف بددیانتی کامیاب رہتی ہے اور ہمیں ہر کام کے لیے رشوت دینی پڑے گی بلکہ دیانت داری اور شفاف طریقے سے بھی کامیابی مل سکتی ہے۔
ہم نے اپنے ادارے میں یہ طے کر رکھا ہے کہ کبھی رشوت نہیں دینی۔ کوئی معاہدہ حاصل کرنا ہے تو صرف شفاف طریقے سے۔ لوگ ہمیں ٹیکس سے بچنے کے راستے دکھاتے لیکن ہم ہمیشہ ایسے لوگوں کو مایوس کرتے ہیں۔
ہم نے اپنی کمپنی کے لیے جن اقدار کو اپنے مشن کا حصہ بنایا ہے وہ بھی لوگوں کی لکھی ہوئی باتوں سے نقالی نہیں بلکہ ہم نے خود دیکھا کہ ہمیں کن باتوں پر فخر ہے اور کن میں ہم خوشی محسوس کرتے ہیں۔ پھر ہم نے دیانتداری ، احترام اور ذمے داری کی ۳؍ اقدار کو کمپنی کی مشن سٹیٹمنٹ کا حصہ بنایا۔
میں احترام کی قدر کے حوالے سے بھی بتانا چاہتا ہوں کہ یہاں کسی سینئر کو حق نہیں کہ وہ اپنے ماتحت کو بے عزت کرے۔ سینئر جانتا ہے کہ ایسے کرنے پر اُسے لائن حاضر کر لیا جائے گا۔ اسی طرح خواتین یہاں احترام کے ماحول میں کام کرتی ہیں۔
س:یہاں سے ہم نے ایک اُصولی بات جاننے کے لیے موضوع کو وُسعت دی کہ پاکستان کے بڑے بڑے ادارے جدت اور تخلیق میں پیچھے رہ جاتے ہیں، اِس حوالے سے کیا منصوبہ بندی کی تھی، کیا سوچا تھا؟
کاشف: اداروں میں ایسا کلچر ہونا چاہیے کہ ہر فرد کی رائے سنی اور اس کی بات کا احترام کیا جائے۔ اس سے نئے آئیڈیاز سامنے آتے ہیں۔ ہم اپنے ادارے میں کوشش کرتے ہیں کہ ہر فرد آزادی سے اپنی رائے پیش کرے اور اسے اپنے آئیڈیاز کو عملی شکل دینے کا موقع بھی دیا جائے۔
ہمارے تعلیمی ادارے بھی طالب علموں میں تخلیقی صلاحیت پیدا کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ طالب علم صرف گریڈز کے چکروں میں پھنسے رہتے ہیں۔ میری اپنی یونیورسٹی یو ای ٹی جہاں میں نے انجینئرنگ کی تعلیم حاصل کی ، وہاں بھی غیرنصابی سرگرمیوں کو ناپسند کیا جاتا ہے۔ میرے خیال میں نصاب کے علاوہ تعمیری سرگرمیاں بھی بہت ضروری ہیں۔ میں اپنی تعلیم کے دوران ان سرگرمیوں میں حصہ لیتا رہا ہوں۔ ہماری یونیورسٹی میں ایک مرتبہ حنیف رامے صاحب آئے۔ انھوں نے ایک بات بہت زبردست کی کہ جب تک یہاں ادب و آرٹس نہیں پڑھائے جائیں گے ،یہ ادارے صرف مشینیں پیدا کریں گے۔ میں نے جس قدر سرگرمیوں میں حصہ لیا، تقاریر کیں، وہ بے انتہا کام آیا ۔
ہمارا اگلا سوال تھا کہ اب دُنیا نوکری کے بجائے خود کا
کاروبار یعنی انٹرپرنیوئیر شپ کی تعلیم اور تلقین کے دور سے داخل ہو چکی
ہے۔ اِس حوالے سے کیا سوچتے ہیں؟
میں انٹرپرنیوئیر شپ کے فروغ کو ضروری سمجھتا اور طالب علموں سے کہتا ہوں کہ اپنے آئیڈیلز کو نہ چھوڑیں اور زندگی میں شارٹ کٹ تلاش نہ کریں۔ میرا پہلے دن سے یقین ہے کہ شارٹ کٹ سے چھوٹی موٹی وقتی کامیابی تو مل جاتی ہے مگر کبھی کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں ہوتی۔ زندگی میں وہ کام کریں جسے آپ پسند کرتے ہوں۔ جب آپ صبح اٹھیں تو کام پر جانے کو دل چاہے، یہ سب سے بڑی کامیابی ہے۔ ہماری یونیورسٹیوں میں شخصیت کی نشوونما پر بہت کم توجہ اور رَٹا لگانے میں مہارت پیدا کی جاتی ہے۔ ہمارے طالب علموں کا علم بھی اخبار کی چند سرخیوں اور ٹاک شوز کے چند جملوں تک محدود رہتا ہے۔ وہ اپنی رائے خود قائم کرنے کے لیے کوشش نہیں کرتے۔
س: اپنی سوچ کی وُسعت اور ذہنی بالیدگی کے لیے کیا پڑھنا پسند کرتے ہیں؟
کاشف: میں نے ابتدائی دنوں میں طنزومزاح میں کرنل محمد خان اور شفیق الرحمٰن کی کتابیں پڑھیں ہیں۔ افسانوں میں منٹو کی کتابیں پڑھی ہیں۔ اب زیادہ تر مینجمنٹ کے موضوع پر مختلف چیزیں پڑھتا ہوں۔ روحانیت میں بھی دلچسپی ہے۔ Power of Now اور New Earth جیسی مقبول کتابوںکے مصنف ایکارٹ ٹولے Eckhart Tolle کو پڑھا ہے۔ اس کے علاوہ دیپک چوپڑا کی چیزیں بھی نظر سے گزرتی رہتی ہیں۔
اُردو ڈائجسٹ بہت باقاعدگی سے پڑھا کرتا تھا۔ ماضی میں
اُردو ڈائجسٹ کی خدمات قابلِ تعریف رہی ہیں۔ درمیان میں رابطہ ٹوٹ گیا، اب
کچھ عرصے سے دوبارہ پڑھنے اور دیکھنے کا اِتفاق ہوا ہے۔ مجھے پورا یقین ہے
کہ اس کی جدید تقاضوں کے مطابق چلنے کی نئی کوشش بہت کامیاب رہے گی۔ ان
تبدیلیوں سے پڑھنے والوں کو فائدہ ملے گا۔
س: آنے والے دنوں میں خود کو کہاں دیکھتے ہیں؟
کاشف: کوشش ہے کہ میری کمپنی کاروٹ آنے والے دنوں میں ریجنل سطح پر سامنے آئے۔ ہمارے پاکستان میں ۵؍ آفس ہیں۔ اِسی سال ہم دُبئی میں اپنا آفس کھول لیں گے۔ ذاتی حوالے سے میری خواہش ہے کہ زندگی میں کسی وقت ماسلو کی تھیوری کے مطابق (Self Actualization) کی سٹیج آئے اور میں سماجی حوالے سے بھی اپنے لوگوں کے لیے کچھ کر سکوں۔ بل گیٹس کی مائیکروسافٹ (Microsoft) کے بعد بل اور میلنڈا گیٹس فائونڈیشن کے پلیٹ فارم سے سماجی خدمت بہت قابلِ قدر ہے اور قابل تقلید بھی۔
ہم سماجی خدمت کے حوالے سے ابھی بھی کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں۔ زیادہ کوشش یہی ہوتی ہے کہ خودنمائی سے بچتے رہیں۔ ایک مرتبہ ہم نے مقبرۂ جہانگیر کی صفائی کی۔ مقصد یہ تھا کہ لوگوں تک یہ پیغام جائے کہ عوامی جگہوں کو صاف رکھا جائے۔ مائیکرو فنانس کے حوالے سے بھی کچھ چیزیں سوچ رہا ہوں کہ لوگوں کو بغیر سود کے قرضے دیے جائیں تاکہ وہ اپنا کوئی کام شروع کرسکیں۔ اس حوالے سے اُخوت تنظیم بہت قابلِ قدر کام کر رہی ہے۔
س: اپنی فیملی کو کتنا وقت دیتے ہیں؟ دیگر معمولات کیا ہیں؟
کاشف: شادی ۲۰۰۴ء میں ہوئی اور فیملی لائف بہت زبردست ہے۔ میرے ۲؍ بچے ہیں۔ بڑا بیٹا ۶؍سال کا ہے۔کام کی مصروفیت کے باعث بعض مرتبہ ان کو وقت دینا مشکل ہو جاتا ہے۔ صبح ۹؍ سے شام ۶، ۷ بجے تک آفس میں وقت گزرتا ہے۔ شام میں کچھ وقت ورزش کے لیے نکال لیتا اورجم باقاعدگی سے جاتا ہوں۔
س: کاروبار میں سب سے یادگار لمحہ کب آیا؟
کاشف: ہر روز کسی نئے چیلنج کے لیے خود کو تیار کرتا ہوں، یہی زندگی ہے۔ اگر کوئی کامیابی مل جائے تو اللّٰہ کا شکر کرتا اور خوشی کو اعتدال میں رکھتا ہوں۔ اگر کوئی نقصان ہو تو خود کو مایوسی سے بچانے کی کوشش کرتا ہوں۔
میرے قریبی لوگوں میں کوئی مایوس ہو تو اس سے ضرور یہ بات
کہتا ہوں کہ بعض اوقات انسان وقتی نقصان یا ناکامی سے بہت پریشان ہو جاتا
ہے۔ زندگی جب آگے بڑھتی ہے تووہ چیز جس نے ماضی میں ہمارے دن رات کا چین
چھین لیا تھا، بہت معمولی دکھائی دیتی ہے۔ اس حوالے سے ایک مقولہ بڑا خوب
ہے۔
’’میں نے جو کچھ زندگی سے سیکھا ہے، وہ چند لفظوں میں بیان ہو سکتا ہے۔ ’’زندگی آگے بڑھ جاتی ہے۔‘‘
س: گلوبل سپیکرز فیڈریشن کی مصروفیت کے بارے میں بتایئے۔
کاشف: پبلک سپیکنگ میں شروع سے میری دلچسپی ہے۔ گلوبل
سپیکرز فیڈریشن (GSF)
کا رُکن بھی ہوں۔ اس فورم پر پروفیشنل سپیکرز کو سیکھنے کے کئی مواقع ملتے ہیں۔ لاہور میں ایسے ہی ایک اور فورم کی سرگرمیوں میں بھی دلچسپی لیتا رہتا ہوں۔
کا رُکن بھی ہوں۔ اس فورم پر پروفیشنل سپیکرز کو سیکھنے کے کئی مواقع ملتے ہیں۔ لاہور میں ایسے ہی ایک اور فورم کی سرگرمیوں میں بھی دلچسپی لیتا رہتا ہوں۔
س: سیاست میں کتنی دلچسپی ہے؟
کاشف: میرا خیال ہے کہ ہمارے ملک میں وقت پر الیکشن ہوتے
رہیں تو ہمارا سسٹم بہت مضبوط ہو جائے گا۔ جب روایات
مضبوط ہوں گی تو کم قابلیت کے لوگ آنے سے بھی سسٹم کو زیادہ نقصان نہیں پہنچے گا۔
مضبوط ہوں گی تو کم قابلیت کے لوگ آنے سے بھی سسٹم کو زیادہ نقصان نہیں پہنچے گا۔
س: آپ کے ادارے کی ٹریننگ کی افادیت کیا ہے؟
کاشف: ہم اپنے انسٹرکٹرز پر بہت محنت کرتے اور اُن کو اپنی صلاحیتوں کے نکھارنے کا بھرپور موقع دیتے ہیں۔ ہمارے ہاں کم قیمت میں اعلیٰ معیار کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ ہمارے پاس مشرقِ وسطیٰ، انگلینڈ، امریکا سے بھی لوگ پڑھنے کے لیے
آتے ہیں۔
س: سسکو (Cisco) اور مائیکروسافٹ کی طرف سے گولڈ سٹیٹس کیسے ملا؟
کاشف:سسکو نیٹ ورکنگ میں عالمی لیڈر ہے۔ Cisco کا گولڈ
پارٹنر بننا ہمارے لیے بڑے اعزاز کی بات ہے۔ اِس سٹیٹس کے لیے ہم نے اپنی
ٹیم تیار کی۔ ان میں مہارت پیدا کی۔ ٹیکنالوجی اور اپنی خدمات کا معیار
بہتر بنایا۔ اس لیے سسکو نے ہمیں یہ اعزاز دیا۔ مائیکروسافٹ کی طرف سے گولڈ
سٹیٹس ملنے کے لیے بھی ہمیں اِنہی مرحلوں سے گزرنا پڑا۔
س: پاکستان اور بھارت کے آئی ٹی میدان میں کیا فرق ہے؟
کاشف: ہمارے ہاں سرمایہ کاری کے سازگار مواقع موجود ہیں۔ بیرونی سرمایہ کار بھی اس ملک پر توجہ دے رہے ہیں۔ ہماری کنٹری برانڈنگ بھارت کے مقابلے میں کمزور ہے۔ ہمیں اپنے ملک کا کردار بہتر انداز میں پیش کرنے کی کوشش کرنی ہوگی۔ ہمارے جو پاکستانی باہر بیٹھے اور اعلیٰ عہدوں پر فائز ہیں، ہمیں انھیں قائل کرنا ہے کہ وہ پاکستان میں دلچسپی لیں۔ یہاں سرمایہ کاری کریں اور نئے مواقع پیدا کرنے کے لیے تعاون کریں۔ دوسرے لوگوں سے تعاون کی درخواست سے پہلے بیرون ملک پاکستانیوں کا اعتماد حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔
شام ڈھل چکی تھی جب ہماری گفتگو اختتام کو پہنچی۔ رُخصت ہوئے تو دِل اِس بات سے سرشار تھا کہ وطنِ عزیز کے نئے بزنس لیڈرز میں سے ایک رول ماڈل سے مل کر آئے ہیں جو کتنے ہی نئے بزنس لیڈرز کا آئیڈیل بھی بن سکتا اور انہیں اچھی اقدار کے ساتھ کامیاب ہونے کا یقین بھی دِلا سکتا ہے۔
دیانتداری، احترام اور ذمے داری ہماری کمپنی کی ۳؍بنیادی اقدار ہیں
حسنِ اتفاق، ذہنی ہم آہنگی
بعض اتفاقات اتنے دلچسپ اور حیران کن ہوتے ہیں کہ ایک مستقل یاد کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ ایسا ہی ایک اتفاق اس مرتبہ جوہرِ قابل کے سلسلے سے جڑا ہوا ہے۔ جوہرِقابل میں اُردُوڈائجسٹ اپنے قارئین کا تعارف ایسے کامیاب لوگوں سے کرواتا ہے جو ہمارے قارئین کے لیے اُمید کا پیغام بنتے ہیں۔ خصوصاً اس سے ہمارے نوجوانوں کے سامنے نئے رول ماڈل آتے اور وہ اپنی زندگیوں کو بامقصد اور بھرپور بنانے کے لیے اپنے اندر نیا عزم اور حوصلہ ڈھونڈنا شروع کرتے ہیں۔
کچھ دِنوں سے میرے ذہن میں بار بار یہ خیال آرہا تھا کہ
اُردو کے نامور مصنف چوہدری افضل حق کی تحریروں میں سے کوئی چیز منتخب کی
جائے اور اسے ڈائجسٹ کی زینت بنایا جائے۔انٹرویو کے لیے آفس سے نکلتے ہوئے
میرے ذہن میں اچانک یہ خیال آیا۔ میں نے اُسی وقت بغیر تمہید کے اپنے مدیر
صاحب سے اس کا ذکر کیا۔اختر عباس صاحب نے اثبات میں جواب دیا کہ ہاں ضرور
ان کی تحریروں میں سے کچھ نکالا جائے اور ساتھ ہی کہا کہ آپ کتاب سے کچھ
منتخب کر لائیے۔
پھر بتانے لگے کہ ہم اپنے مشاہیر کے ساتھ اچھا سلوک نہیں
کرتے۔ مغرب والوں نے شیکسپیئر کی زبان کو آج کے زمانے اور ڈکشن کے لحاظ سے
نئے سرے سے اختیار کیا اور روز لندن میں تھیٹر کر کے اِسے زندہ کیا تاکہ
لوگ اس کے کام سے بھرپور مزہ اٹھائیں۔
پھر باتوں باتوں میں ایڈیٹر صاحب سے نفسیات پر بات چل نکلی کہ آنے والے شمارے میں مثبت نفسیات کے ایک بڑے نام ابراہیم ماسلو کے نظریے (Self actualization) کی خوبصورت باتوں کو جگہ دی جائے۔ اسی روز شام کو ہماری ملاقات کاشف الحق سے ہوئی۔ ملاقات کے ابتدائی لمحوں میں ہمیں اندازہ ہوگیا کہ ہمارا انتخاب اچھا تھا اور اس ملاقات سے ہمیں کام کی چیزیں ملنے والی ہیں۔
کاشف الحق اپنے بارے میں بتا رہے تھے۔ اخترعباس صاحب نے ان سے والدین اورخاندان کے حوالے سے سوال پوچھا۔ کاشف الحق نے اپنے والد کے بارے میں بتایا کہ وہ وکیل تھے ۔ پھر انھوں نے اپنے دادا کا ذکر کیا کہ تحریکِ آزادی کے سپاہی اور اُردو کے نامور مصنف تھے اور ان کا نام تھا ’’چوھدری افصل حق۔‘‘
اس اتفاق پر بہت خوشی ہوئی۔ کاشف الحق سے گفتگو جاری رہی۔ وہ کارپوریٹ دنیا میں اپنی کامیابیوں اور اپنی اقدار کے حوالے سے باتیں کرتے رہے۔ میرا ذہن گفتگو سننے کے ساتھ ساتھ ان اقدار کا سلسلہ چوھدری افضل حق کی ’’زندگی‘‘ جیسی خوبصورت تحریروں سے جوڑنے میں بھی مصروف رہا۔ اس وقت مزید حیرانی ہوئی جب کاشف الحق نے اپنی خواہش کا اظہار کیا کہ وہ چاہتے ہیں کہ کسی وقت ابراہیم ماسلو کے نظریے کے مطابق ان کی زندگی میں (Self Actualization) کی سٹیج آئے اور وہ روپے پیسے کے چکر سے آگے نکلتے ہوئے سماجی خدمت کے حوالے سے کوئی کام کر سکیں
عاطف مرزا-اُردوڈائجسٹ
No comments:
Post a Comment