Wednesday, 22 February 2012

بین الاقوامی سائبر ڈرل مقابلہ، پاکستانی ٹیم کی فتح



گزشتہ دنوں کمپیوٹر کے شعبے سے وابستہ پاکستانی نوجوانوں نے سائبرحملوں سے حفاظت اور ان سے بچاؤ کی تدابیر اختیار کرنے کے حوالے سے ہونے والے ایک بین الاقوامی سائبر ڈرل مقابلے میں فتح حاصل کی ہے۔
 
سائبر حملے دنیا بھر کی حکومتوں کے لیے درد سر بنے ہوئے ہیں۔ کمپیوٹر کے ماہرین مگر منفی رحجانات رکھنے والے ہیکرز اپنی شناخت چھپاتے ہوئے امریکہ اور برطانیہ سمیت دنیا کے مختلف ملکوں کی ویب سائٹس پر نہ صرف حملے کرتے ہیں بلکہ اپنے اس کارنامے کی تشہیر بھی کرتے ہیں۔
پاکستان انفارمیشن سکیورٹی ایسوسی ایشین نے اپنے چار ارکان اور نیشنل یونیورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے چار طلبہ کے ساتھ اس مقابلے میں شرکت کی۔ 20 ممالک کے ماہرین کی 25 ٹیموں کے درمیان ہونے والے اس مقابلے میں پاکستانی ٹیم فاتح رہی۔
اس مقابلے میں شریک ایک طالبہ فرحت مسعود نے ڈوئچے ویلے سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ چار گھنٹے تک یہ ڈرل جاری رہی جس میں دس خطرناک وائرس تھریٹس کا تجزیہ کرتے ہوئے انہیں روکنا اور ان کا توڑ کرنا تھا: ’’ یہ مقابلہ اس طرح تھا کہ ہم نے اپنے پی سی اور سرورز سیٹ کر رکھے تھے۔ جب یہ تھریٹس آتے تو ہمیں ای میل کے ذریعے بتایا جاتا تھا کہ میل وئیرز نے اٹیک کر دیا ہے۔ ہمارے سرورز اور پی سی پر وائرس کا حملہ ہوتے ہی ہمیں فوری ردعمل ظاہر کرنا تھا۔ ہم اس بات کا تعین کرتے کہ یہ کیسا وائرس ہے اور اس کے تجزیے کے بعد فوری طور پر اس کو روکنے کی تدبیر کرتے۔‘‘

 14 فروری 2012ء کو ہونے والے سائبر ڈرل مقابلے میں پاکستان کے علاوہ 20 ممالک کی 25 ماہر ٹیمیں شریک تھیں 14 فروری 2012ء کو ہونے والے سائبر ڈرل مقابلے میں پاکستان کے علاوہ 20 ممالک کی 25 ماہر ٹیمیں شریک تھیں
اس مقابلے کا انعقاد ایشیا پیسیفک کمپیوٹر ایمرجنسی ریسپانس ٹیم(APCERT) کی جانب سے کیا گیا تھا۔ ایشیا پیسیفک ممالک کے درمیان تعاون اور معلومات کے تبادلے کی غرض سے اس آرگنائزیشن کا قیام 2005 میں عمل میں آیا تھا۔ فرحت بتاتی ہیں کہ مقابلے میں ان کی ٹیم نے اسلام آباد سے شرکت کی تھی اور اسے پاکستان انفارمیشن سکیورٹی ایسوسی ایشن نے اپنی نگرانی میں کروایا تھا۔ پاکستان انفارمیشن سکیورٹی ایسوسی ایشن ایک نجی ادارہ ہے جو FIA کے سابق ڈائریکٹر عمار حسین جعفری کی سربراہی میں سکیورٹی ریسرچرز کو تربیت فراہم کرتا ہے۔
فرحت مسعود کہتی ہیں کہ دنیا کے تمام ممالک کی آئی ٹی انڈسٹری سائبر حملوں کی روک تھام پر توجہ دے رہی ہے، پاکستان میں اس حوالے سے ابھی تک کوئی خاص توجہ نہیں دی جارہی: ’’انٹرنیٹ جب بنا تھا تو کسی کے ذہن میں اس کی سکیورٹی کا کوئی خیال یا کانسیپٹ نہیں تھا۔ لیکن جیسے جیسے اس میدان میں ترقی ہو رہی ہے نئے دیٹا بیسز آرہے ہیں، نئی اپلیکیشنز آرہی ہیں، سکیورٹی کی ضرورت بہت بڑھتی جا رہی ہے۔ لیکن ایک تاریک پہلو یہ ہے کہ پاکستان میں ماسٹر لیول پر سوائے ایک دو اداروں کے کوئی ادارہ اس حوالے سے تعلیم فراہم نہیں کر رہا۔‘‘

’’پاکستان میں سائبر حملوں سے بچاؤ کے حوالے سے ابھی تک کوئی خاص توجہ نہیں دی جارہی‘‘ ’’پاکستان میں سائبر حملوں سے بچاؤ کے حوالے سے ابھی تک کوئی خاص توجہ نہیں دی جارہی‘‘
کمپیوٹر ماہرین کے مطابق پاکستانی حکومت ملکی ڈیٹا، ویب سائٹس اور دیگر اہم تنصیبات کو سائبر حملوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ایسے پرعزم نوجوانوں کی صلاحیت سے فائدہ اٹھا سکتی ہے۔ تاہم فرحت مسعود کہتی ہیں کہ ابھی ایسی کوئی صورت نظر نہیں آ رہی: ’’ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ حکومت پاکستان انفارمیشن سکیورٹی ایسوسی ایشن کو حکومتی سکیورٹی ایجینسی کا درجہ دے تاکہ اگر حکومت یا ملک پر کوئی سائبر حملہ ہو تو ہم باقاعدہ طور پر اس سے بچاؤ میں مدد کر سکیں۔ تاہم ابھی اس حوالے سے حکومت سے کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے۔ نہ ہی حکومت نے اس کے لیے کوئی ریسپانس دیا ہے۔‘‘
14 فروری 2012ء کو ہونے والے سائبر ڈرل مقابلے میں پاکستان کے علاوہ آسٹریلیا، بنگلہ دیش، برونائی،چین، ہانگ کانگ، بھارت، انڈونیشیا، ملیشیا، کوریا، جاپان، میانمار، سنگاپور، مکاؤ ،تھائی لینڈ، ویتنام، سری لنکا، تیونس اور مصر سے پچیس ماہر ٹیموں نے شرکت کی تھی۔

ڈوئچے ویلے
 

No comments:

Post a Comment