سائنسدانوں کا ماننا ہے کہ فیس بک،یو ٹیوب حتیٰ کہ ٹیکسٹ پیغامات دنیا میں خاتمے کے خطرے کا شکار زبانوں کے بچاؤ کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔
دنیا میں آج بولی جانے والی سات ہزار زبانوں میں سے قریباً نصف ایسی ہیں جن کا کوئی بھی بولنے والا رواں اس صدی کے اختتام تک باقی نہیں رہے گا۔
عموماً دنیا میں گلوبلائزیشن پر تنقید کی جاتی ہے لیکن جدید دنیا کی کچھ چیزیں خصوصاً ڈیجیٹل ٹیکنالوجی قدیم دنیا کی مدد کر رہی ہیں۔
اس کی مثال شمالی امریکہ کے قبائل ہیں جو سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی نئی نسل سے روابط استوار کر رہے ہیں۔
سائبریا اور منگولیا کے خانہ بدوشوں کی ایک مقامی بولی ٹوان کے لیے آئی فون ایپلیکیشن تیار کی گئی ہے جو اسے سیکھنے والوں کو الفاظ کا صحیح تلفظ بتاتی ہے۔
لسانیات کے استاد پروفیسر کے ڈیوڈ ہیریسن کا کہنا ہے کہ ’چھوٹی زبانیں اپنی آواز پھیلانے اور اپنی موجودگی کا احساس دلانے کے لیے سوشل میڈیا، یو ٹیوب، ٹیکسٹ پیغامات اور دیگر ٹیکنالوجیز استعمال کر رہی ہیں‘۔
انہوں نے یہ بات امریکن ایسوسی ایشن فار ایڈوانسمنٹ آف سائنس کے سالانہ اجلاس سے خطاب کے دوران کہی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’یہ گلوبلائزیشن کا دوسرا رخ ہے۔ ہم بہت سنتے ہیں کہ کس طرح چھوٹی ثقافتوں پر گلوبلائزیشن کے منفی اثرات پڑتے ہیں لیکن اس کا ایک مثبت اثر یہ ہے کہ ایسی زبان جسے پانچ یا پھر پچاس افراد کسی دوردراز علاقے میں بولتے ہیں، ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کی مدد سے دنیا بھر میں اپنے سامعین اور بولنے والے تلاش کر سکتی ہے‘۔
ڈاکٹر ہیریسن کا ماننا ہے کہ دنیا کی تمام زبانیں باقی نہیں رہ سکتیں اور جب ان کے بولنے والے باقی نہیں رہیں گے تو یہ ختم ہو جائیں گی لیکن نئے ڈیجیٹل آلات اور پروگراموں نے ایسی بہت سی زبانوں کو نئی زندگی دی ہے جو چند برس قبل خاتمے کے کنارے پر تھیں۔
بی بی سی اردو
No comments:
Post a Comment